بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ کے مقاصد

سلمان احمد لالی

امریکی صدر بائیڈن حکومت میں آنے کے بعد پہلے دورہ مشرق وسطیٰ کیلئے پہنچ چکے ہیں۔ ماہرین اس دورے کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ لیکن اسکی اہمیت کس وجہ سے ہے، اور عالم اسلام پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس دورے کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ ایک توعرب ریاستوں پر تیل کی پیداوار بڑھانے کیلئے دباو ڈالنا اور دوسرا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوشش کرنا۔
دورے کے پہلے حصے میں بائیڈن تل ابیب پہنچیں گے جو اسرائیل کا دارلحکومت ہے لیکن تمام اہم میٹنگز یروشلم میں ہوں گی۔اسکی کیا وجہ ہے؟ یروشلم کو اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کیلئے چننےکا مقصد یہ ہےکہ اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کی جاسکے کہ یروشلم ہی صیہونی ریاست کا دارالحکومت ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس لحاظ سے بائیڈن اپنے پیشرو ٹرمپ سےکسی طرح بھی مختلف نہیں ہیں۔ اور وہ اسرائیلی مقاصد اورمنصوبوں کیلئے مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ اس دوران مغربی کنارے میں فلسطینی قیادت سے بھی ملاقات ہوگی لیکن اس کی اہمیت ماسوائے فوٹو سیشن کے کچھ زیادہ نہیں ہے۔
بائیڈن چاہتے ہیں جیسے ٹرمپ ابراہم ایکارڈ جیسے اہم معاہدے کے ذریعے اسرائیل اور کچھ خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کامیاب ہوئے اسی طرح وہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کریں اور تاریخ میں اپنا نام بھی رقم کروائیں اور واشنگٹن میں صیہونی لابی کی دولت کوڈیموکریٹک پارٹی کے سیاسی فائدے کیلئے کام میں لا سکیں۔
دوسری اہم بات بائیڈن کا یروشلم میں دو دن کا قیام ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بائیڈن کی نظرمیں صیہونی ریاست کی کیا اہمیت ہے۔ وہ تاریخ میں پہلے صدر ہوں گے جواسرائیل سے ڈائریکٹ فلائٹ کے ذریعے سعودی عرب جائیںگے۔ وہاں کی انکے اعزاز میں تمام مسلمان خلیجی ریاستوں کے سربراہ آئیں گے تاکہ اجلاس کے بہانے بائیڈن کی دست بوسی کر سکیں۔ سعودی عرب میں بائیڈن کا ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ ہے کہ کسی طرح انہیں زیادہ سے زیادہ تیل کی پیداوار کیلئے قائل کر سکیں تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی آسکے۔ اور دوسرا سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کیلئے قائل کرنا۔ لیکن اس سے مسلمان عرب ریاستوں کا کیا فائدہ؟تیل کی پیداوار میں اضافے سے امریکہ اور مغرب کو فائدہ ہوگا اور اسرائیل سے تعلقات کی بحالی سے بھی اسرائیل اور امریکہ کو فائدہ ہوگا۔
اسکے بدلے بائیڈن کو ایک چھوٹی سے قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اور وہ قیمت ہے سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ مسکراتے ہوئے تصویربنوانا۔ کیوں کہ بائیڈن نے جو الفاظ محمد بن سلمان کیلئے استعمال کیے تھے اسکی نظیر نہیں ملتی۔ اور محمد بن سلمان کو اپنے اقتدار کی راہ میں امریکی مخالفت آخری رکاوٹ نظر آتی ہے۔ یہ رکاوٹ دور ہوجائے گی ، کم از کم ابھی کیلئے لیکن اس میں بھی ایک راز پنہاں ہے اوروہ ہے سابق ولی عہد محمد بن نائف اور دیگر امریکہ نواز شہزادوں کی رہائی کا امریکی مطالبہ۔ امریکہ شاہی خاندان میں اپنے حامیوں کی مدد کرنےچاہتا اور ان کے ذریعے محمد بن سلمان پر بھی دباو بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
اسکے علاوہ ایران ایک اہم موضوع ہوگا۔ یہ وہ دشمنی اور مخالفت ہے جو اسرائیل اور سعودی عرب کو قریب لانے کی موجب بن رہی ہے۔ ان میں صرف ایک ہی قدر مشترک ہےاور وہ ہے ایران سے دشمنی۔ ایران نے حالیہ برسوں میں کم وسائل اور پابندیوں کے باوجود جس طرح سے یمن ، لبنان اور شام میں اپنا اثرو رسوخ بڑھایا ہے اس نےریاض اور تل ابیب کی راتوں کی نیند اڑاکے رکھ دی ہے۔
لیکن ایران کے خوف سے شاید ایران کو تو فائدہ نہ پہنچے لیکن امریکہ اور اسرائیل کو اس سے ضرور فائدہ پہنچ رہا ہے اور امت کا شیرازہ بکھیرنے میں ایران اور سعودی عرب کی دشمنی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بہتر ہوگئے تو پاکستان جیسے دیگر ممالک پر بھی دباو بڑے گا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ جس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More