ترکی پاکستان سیکورٹی ڈائیلاگ

سہیل شہریار

پاکستان اور ترکی کے ماہرین کے درمیان سلامتی کے بارے میں استنبول میں اپنی نوعیتکی پہلی مجلس جاری ہے جس میں دونوں ممالک کےدانشور، ماہرین تعلیم، محقق اور سینئر صحافی و تجزیہ کار اکٹھے کئے گئے ہیں تاکہ علاقائی مسائل، پالیسیوں اور اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔


منگل کے روز سے جاری گفت وشنید کا یہ سلسلہ کل جمعہ کی شام اپنے اختتام کو پہنچے گا۔دونوں برادر اسلامی ملکوں کے ماہرین کے مابین اس ڈائیلاگ کا اہتمام استنبول کی آیدن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف لاہور کے باہمی اشتراک سے کیا گیا ہے ۔ اس چار روزہ مجلس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں یونیورسٹی آف لاہور کے سینٹر فار سیکیورٹی، اسٹریٹجی اینڈ پالیسی ریسرچ کی ڈائریکٹر پروفیسر رابعہ اختر، پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر حسین شہید سہروردی، معروف صحافی اعجاز حیدر اور قائداعظم یونیورسٹی میں سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور معروف تجزیہ کار ظفر نواز جسپال جبکہ میزبان ترکی کی جانب سے آیدن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد حزیر طارق اوزلو ،آیدن یونیورسٹی کے پروفیسر احمد قاسم ہان نمایاں ہیں۔
ترکی ۔پاکستان ڈائیلاگ میںگذشتہ دو روز کے دوران ہونے والی فکری نشتوں میں بین الاقوامی تعلقات، سلامتی کے امور صحافتی تجربہ کا حامل شرکا نے اس امر پر اتفاق کیا کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے تناظر میں ترکی اور پاکستان کو یکساں مسائل کا سامنا ہے، اگر پاکستان کو افغانستان میں امن و سلامتی کے کے مسائل کا سامنا ہے تو ترکی کو شام میں ایسے ہی مسائل درپیش ہیں۔اسی طرح دونوں ملکوں کو امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے باوجود امریکہ کی جانب سے پابندیوں اور دباؤ کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ اس ضمن میں ترکی نے کثیر جہتی خارجہ پالیسی بنائی ہے جس کے تحت امریکہ سے اپنے تعلقات کو متاثر ہونے سے بچاتے ہوئے روس اور چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات کئے ہیں، ترکی نیٹو کا رکن ہے اور یورپی یونین میں شمولیت کا اہم امیدوار ہے ۔ چنانچہ دونوں ملک اپنے بین الاقوامی تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔


پروفیسر رابعہ اختر کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک کے اسکالرزنے اپنے خیالات کو کھلے دل سے سننے کاموقع فراہم کیا جو کہ فکری طور پر ایک بہت ہی دلچسپ اور مفید مشق ہے۔صحافی اعجاز حیدر نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے لیے سٹریٹجک ڈائیلاگ کا ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے مسائل ہیں جو پاکستان اور ترکی کے لیے مشترکہ ہیں۔استنبول آیدن یونیورسٹی کے پروفیسر حزیر طارق اوزلو نے کہا کہ ترکی نے 2000 کے اوائل سےکثیر جہتی خارجہ پالیسی اپنارکھی ہے۔ترکی نے روس سے تعلقات بنا کر تویراتی خودمختاری حاصل کی ہے۔ مگر ہم نے مغرب کو کبھی الوداع نہیں کہا بلکہ آج بھی ہماری نصف سے زیادہ تجارت یورپی بلاک کے ساتھ ہے۔
پروفیسر حریز طارق نے ترکی کے لئے ایک نئی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے اسے روایتی درمیانی طاقتوں کے برعکس ایک "دوسری نسل کی درمیانی طاقت والا ملک” قرار دیا۔پروفیسر ظفر اقبال جسپال نے پاک بھارت کشیدگی کو پورے جنوبی ایشیا کی ترقی کی راہ سب سے بڑی روکاوٹ قرار دیا ۔انکا کہنا تھا کہ چین ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر خود کو منوا چکا ہے اور اقتصادی تعاون تنظیم، شنگھائی تعاون تنظیم، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، اور اس کا فلیگ شپ پروگرام چین پاکستان اقتصادی راہداری اسکی اہم مثالیں ہیں۔
ترکی اور پاکستان کے تجارتی تعلقات اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے ہونے والی نشت میں پروفیسر سید حسین شہید سہروردی نے ہندوستان کی "علاقائی توسیع پسندی” اور تنازعہ کشمیر کے حل پر زور دیا۔ انہوں نے بھارتی ہٹ دھرمی کو سارک تنظیم کے غیر فعال ہونے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت کم ہوئی ہے۔ نہوں نے ترکی کے اقتصادی ماڈل کو "حیرت انگیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ "پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔پروفیسر احمد قاسم ہان نے ترکی اور پاکستان کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے "لاجسٹکس” کی اہمیت کی نشاندہی کی اور دونوں ملکوں کے اپنی اپنی کرنسیوں میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔پروفیسر فرحان صدیقی نے تجارت، مہاجرین کے مسائل، نسلی تنازعات، سماجی اور قومی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کو دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مسائل کے طور پر نوٹ کیا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More