ترکی کے نیٹو میں شمولیت کے 70سال

انقرہ (پاک ترک نیوز)
سابق سوویت یونین کے خلاف یورپی دفاع کو یقینی بنانے کیلئے نیٹو اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی اور ترکی کی ستر برس قبل اس میں شمولیت نے اتحا د کو مزید طاقت فراہم کی کیوں کہ جغرافیائی اعتبار سے ترکی ایسے خطے میں واقع ہے جو سابق سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔
سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد نیٹو کے ٹوٹنے کی امید تھی لیکن اس کے برعکس یہ آج بھی ترقی یافتہ ممالک کے اتحادکے طور پر مضبوطی سے کھڑا ہے اور بین الاقوامی سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ آج نیٹو صرف ایک اتحاد نہیں بلکہ یہ اس سے آگے بڑھ کر ایک بین الاقوامی ادارے میں تبدیلی ہو چکا ہے۔اس کے رکن ممالک کا تعلق بر اعظم امریکہ سے لے کر ایشیا کی سرحدوں تک ہے۔
ترکی نے ہمیشہ نیٹو کو ایک تزویراتی اتحاد کے طور پر دیکھا ہے جو نہ صرف رکن ممالک کے دفاع کی ضمانت دیتا ہے بلکہ دنیا بھر میں امن اور استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
ترکی نیٹو ممالک کے ان پانچ ارکان میں شامل ہے جنہوں نے مشترکہ مشنز اور آپریشنز میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا جیسا کہ کوسوو، افغانستان اور عراق میں دیکھا گیا۔اسی طرح ترکی نیٹو کے جغرافیائی اور سیاسی مستقبل کے بالکل مرکز میں کھڑا ہے۔
لیکن ترکی نے اپنے اتحادیوں سے یورپ کی سرحدوں پر استحکام کیلئے کوششیں بڑھانے کی مطالبہ بھی کیا ہےکیوں کہ شام میں پیدا ہونے والے حالات نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ کسی ایک ملک میں جنم لینے والا عدم استحکام پوری دنیا میں پھیل سکتاہے۔شا م میں پیدا ہونے والے دہشتگردی اور نقل مکانی جیسے مسائل ابھی تک حل کےمنتظر ہیں۔
دوسری جانب ترکی نے بعض نیٹو ممالک پر پی کے کے سے منسلک شامی گروہ کی مدد کرنے پر تنقید بھی کی ہے جو ایک گروہ کو دوسرے سے لڑنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
ترکی کے خیال میں ڈیٹرینس کے اصول نے نیٹو کو اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے میں مدد دیاور اسی اصول نے رکن ممالک کو سالوں تک تباہ کن جنگوں سے دور رکھنے میں مددکی جس سے عالمی سطح پر استحکام کا حصول ممکن ہو سکا۔

 

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More