تحریر :سلمان احمد لالی
میرا سلطان کے پروڈیوسر کو سینئر سکرپٹ رائٹر آنجہانی میرل اوکے نے ڈرامےکا سکرپٹ بھیجا تو انہیں یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ کہانی دنیابھر کے لوگوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردے گی۔اسکے بعد جو ہوا وہ حیران کن تھا۔
میرا سلطان کے نام سے پاکستان میں نشر ہونے والے ڈرامے Magnificent Century میں عثمانی خلیفہ سلطان سلیمان کی کہانی ہے جس میں اس دورکی محلاتی سیاست میں خواتین کے کردار کو نمایاں انداز میں دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی میں خلیفہ کی حورم نامی کنیز کے ساتھ معاشقے اور پھر شادی کوبھی تفصیل سے دکھایا گیا ہے جس نے عثمانی سلطنت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا۔ یہ ڈرامہ دنیا بھر میں پچاس کروڑ افراد دیکھ چکے ہیں۔ ٹی وی پر پہلی بار نشر ہونےسے لےکر اب تک یہ ڈرامہ ایک سو پچاس ممالک میں دیکھا جا چکا ہے اور اسے کئی زبانوں میں ڈب کیا جاچکا ہے۔
ترکی کو ان ڈراموں کی برآمد سے 2008میں ایک لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی جبکہ 2020میں یہ پانچ سو ملین ڈالرز تک پہنچ چکی تھی اور ترکی امریکہ کے بعد دنیا کادوسرا سب سے بڑا ٹی وی کانٹینٹ ایکسپورٹر بن چکا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق ترک ڈراموں کا دنیا بھر میں مارکیٹ شیئر 25فیصد تک پہنچ چکا ہےاور 2023میں ان سے ایک ارب ڈالر تک آمدنی متوقع ہے۔یہ ترک ڈرامہ کی طاقت کا اظہار ہے۔
ترک ڈراموں کی مقبولیت کی ایک وجہ حقیقت پسندانہ کہانیاں ہیں جو مڈل کلاس افراد کیلئے انتہائی پرکشش ہیں۔ان میں جدید طرز زندگی اور روایات کے امتزاج کو جس خوبصورتی سے دکھایا جاتا ہے وہ انہیں ناظرین مقبول بناتا ہے۔
مغربی ناظرین کیلئے ان ڈراموں میں رومانس، تعلقات میں روایات کا تڑکہ اور اولڈ سکول رومانوی جذبات انہیںمنفرد بناتا ہے جوکہ امریکی ٹی وی شوز میں نہیں دیکھنے کو ملتا۔ جبکہ مشرقی ممالک سے تعلق رکھنے والے ناظرین کو ترک سیکولر کلچر ، ماڈرن ازم کو روایات کے بندھن میں بندھا دیکھنا پسند ہے۔ ترک ڈراموں میں اخلاقیات کا جنازہ اس طرح نہیں نکالاجاتا جو کہ مغربی ٹی وی شوز کا خاصہ ہے۔ مغلظات اور برہنگی سے اجتناب بھی ان ڈراموں کی مشرقی ممالک میں کامیابی کی بڑی وجہ ہے۔ ترک ڈراموں کا سکرپٹ بہت ہی مضبوط ہوتا ہے جس میں کہانی اور کرداروں کو منطقی اندازمیںچلایا جاتا۔ اس حوالے سے بہت احتیاط برتی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ تاریخی کہانیوں کو بھی بہت ہی منفرد اندازمیں پیش کیا جاتا ہے جس میں کرداروں کے لباس سے لے کر سیٹ تک بہت ہی ریسرچ اور محنت سے تیار کیے جاتےہیں۔
ترک پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی جانب سے جس انداز میں ڈرامے بنائے جاتے ہیں اسکی ایک خاصیت یہ ہےکہ بعض غیر ملکی ڈراموں سے متاثر ہوکر لوکل سطح پر بنائے جانے والے ڈرامے اصل سے زیادہ مقبول ہوجاتے ہیں۔
یہ صرف انٹرٹینمنٹ کی کہانی نہیں ہے بلکہ ترکی کی جانب سے اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کیلئے سافٹ پاور کے حصول کا ذریعہ ہے۔ سافٹ پاور ثقافتی اور معاشی سرگرمیوں کے ذریعے کسی کے ملک کا امیج بہتر بنانے کو کہتے ہیں۔ امریکہ نے ایم ٹی وی اور فاسٹ فوڈ کے ذریعے دنیا بھر کو اپنی ثقافت سے متعارف کروایا۔ انڈیا نے جنوبی ایشیا ئی موسیقی اور کھانوں ،جن پر پاکستان اور بنگلہ دیش کا بھی حق ہے، کو انڈین میوزک اور انڈین فوڈ کا نام دے کر اور یوگا کو دنیا بھر میں ایکسپورٹ کرکے اپنی سافٹ پاور میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے آج مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اور سیاح اسکی جانب کھچے چلے آتے ہیں۔ چین نے بھی اپنے کھانوں اور ثقافت کو دنیا میں اسی مقصد کے تحت بہت کامیابی سے پھیلایا ہے۔
ترکی کے ڈراموں نے سیاحت کی انڈسٹری کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ اعداد و شمار نکالیں، پاکستان میں عشق ممنوع نشر ہونے سے قبل اور بعد میں پاکستان سے ترکی جانے والے سیاحوں کی تعداد کا موازنہ کریں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔
ترکی کے ڈراموں کا ذکر ہواور مسلمانوں کے گیم آف تھرونز کہلائے جانے والا ڈرامہ ارطغرل کا ذکر نہ کیا جائے ، یہ ہو نہیں سکتا۔ یہ ڈرامہ 2014سے 2019تک ترکی میں نشر ہوا جس کے بعد اسے 100سے زائد ممالک میں ایکسپورٹ کیا گیا ۔ اس ڈرامے میں عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھنےوالے عثمان کے والد ارطغرل کی جدو جہد کی داستان بیان کی گئی ہے جو بڑی حد تک فکشن ہے ۔ عرب ممالک میں بچوں کو ترکی کے بارے میں قابض اور ظالم بتایا جاتا ہے جو مغربی استعماری طاقتوں کی طرح عرب پر قابض تھا، عرب ممالک بھی اپنے مفادات کے تحت تاریخ کو مسخ کرنے سے نہیں چوکتے ۔ عرب ممالک میں ارطغرل جیسے ترک ڈراموں نے وہاں کے عوام میں ترکی کیلئے جو جذبات پیدا کیے ہیں وہ کئی دہائیوں پر محیط سفارتی کوششوں سے بھی ممکن نہ تھا۔
حتیٰ کہ یونان اور بلغاریہ میں بھی ترک انٹیلی جنس اور سپشل فورسز کے بارے میں بنائے گئے ڈراموں The Trustedاور The Shadow Team کو بہت مقبولیت ملی ہے۔
یوں اردوان کی کامیاب میڈیا پالیسی نے وہ کام کردکھا یا جو دنیا میں کم ہی ملک کر پائے ہیں۔
salmanlali87@gmail.com
Salman Lali (@salmanlalipak) / Twitter