تحریر : سلمان احمد لالی
یہ اس دہائی کا دوسرا سب سے بڑا واقعہ تھا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ابھی دنیا کورونا وائرس کی عالمی وبا سے سنبھل ہی رہی تھی کہ یوکرین کو جنگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں واقعات نے عالمی نظام میں موجود خامیوں ، کمزوریوں اور کوتاہیوں کا آشکار کیا۔ اب دنیا بدل رہی ہے، نظام عالم میں بھی تبدیلی آرہی ہے اور جیو اسٹریٹجک ماحول بھی بدل چکا ہے۔
کورونا وائرس پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا لیکن جنگ کو ٹالا جاسکتا تھاجو نہ ہو سکا اور دنیا اور معاشی بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی کوکھ سے ایک اور ہولناک جنگ بر آمد ہو سکی ہے۔
روس نے امریکہ سے سیکیورٹی گارنٹی مانگی، نیٹو میں نئے ارکان کی شمولیت پر پابندی کا مطالبہ کیا ، روس کے ہمسائے میں جمہوریت کی حمایت سے باز رہنے کا مشورہ دیا لیکن امریکہ اور مغربی ممالک نے ایک نہ سنی۔ بالآخر روسی افواج نے سرحدیں عبور کرکے یوکرین کے خلاف اپنی فوجی کاروائیوں کا آغاز کردیا۔
بد قسمتی سے جس وقت یہ کاروائی شروع ہوئی اس وقت پاکستان کےوزیر اعظم عمران خان ماسکومیں موجود تھے جس سے انکی جانب سے حملے کی حمایت کا
تاثر ملا۔ عمران خان حیران کن طور پر سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں اور ان میں لیڈر شپ کی خوبیاں موجود ہیں لیکن وہ سیاستدان نہیں ہیں۔ انکے تجربے میں بین الاقوامی سیاست اور سٹریٹجک معاملات کی سمجھ بوجھ شامل نہیں ۔ انکے ساڑے تین سالہ دور اقتدار میں انسے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن یہ آخری غلطی انکے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ عمران خان دنیا کے ان کروڑوں انسانوں میں سے ایک ہیں جو مغرب کی اجارہ داری ، دیگر ممالک کے معاملات میں دھونس دھاندلی سے ہمیشہ نالاں رہے ہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ افغانستان میں نیٹو کی جنگ کے وہ کتنے بڑے ناقد تھے۔ اسی وجہ سے شاید امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پیوٹن کی جانب سے حملے کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیوں کیاگیا جب پاکستان کا وزیر اعظم جنگ پر تبادلہ خیال کیلئے نہیں بلکہ دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کیلئے ماسکو کے دورے پر تھا۔ پیوٹن کے طرز فکر کو سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے مطابق پیوٹن نے بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملے کیلئے اس وقت کا انتخابات کیا۔ لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ عمران خان کے بعد اب پیوٹن کو بھی لینےکے دینے پڑھ رہے ہیں۔
ماسکو کا منصوبہ ایک غلط مفروضے پر قائم کیا گیا تھا ، وہ مفروضہ یہ تھا کہ جیسے 2014میں کرائمیا پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کرلیا گیا ، کم وبیش اسی طرح کے موافق حالات انہیں کیف کے اردگرد بھی ملیں گے ۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ نیٹو کے ارکان پہلے سے ہی اختلافات کا شکار تھے وہ ایک یکساں موقف نہیں اپنا سکیں گے۔
دوسری جانب روس پرا عتما د تھا کہ یورپ روسی تیل اور گیس پر انحصار کی وجہ سے اس تنازعے سے دور رہے گا اور زبانی کلامی تنقید پر ہی اکتفا کرے گا لیکن روس کیلئے بہت سے سرپرائزز منتظر تھے۔
سب سے پہلے روسی افواج کی جانب سے میدان جنگ کے حوالے سے غلط یا ناکافی معلومات کی بنا پر کئی فیصلے کیے جو غلط ثابت ہوئے، اسے انٹیلی جنس پریپیریشن آف بیٹل فیلڈ کہتے ہیں (IPB)۔
ناقص آئی پی بی کی وجہ سے روسی منصوبے کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب یوکرین کے دار الحکومت کیف کے ہوائی اڈے پر پیرا ٹروپرز کو اتارنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انہیں جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اسکی توقع روسی فوجی نہیں کر رہے تھے۔ یہ روسی حملے کی ناکامی کیلئے پہلا برا شگون ثابت ہوا۔ منصوبہ تو یہ تھا کہ ائیر پورٹ کو کنٹرول کرکے روسی ایلیٹ یونٹس کو یہاں اتارا جائے اور بہت تیزی سے ولادیمیر زیلنکسی کی حکومت کو بر طرف کرکے ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ لیکن یوکرینی فوج اور عام کی غیر متوقع مزاحمت نے ان سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ حال ہی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے کہا کہ چین اس ساری صورتحال کا بغور مطالعہ کر رہا ہے اور یوکرینیوں کی جانب سے کی جانے والی سخت مزاحمت چینی فیصلہ سازوں کیلئے حیران کن امر ہے۔ وہ اس سے سیکھے گئے اسباق کو تائیوان کے خلاف اپنے منصوبے میں مناسب تبدیلیاں کرنے میں ضرور استعمال کرےگا۔
اسی طرح بہت سے امریکی ماہرین نے افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد اشرف غنی کی حکومت کےبکھرنے پر کہا تھا کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی جس طرح افغان فورسز نے تیزی سے طالبان کے خلاف ہتھیار ڈالے، اگر وہ مزاحمت کرتی تو شاید امریکہ انکی مدد و اعانت جاری رکھتا۔
خیر سپیشل فورسز کے آپریشن کی ناکامی کے بعد روسی فوج نے روایتی کاروائیوں کا سہارا لیا جس نے اسکی کئی کمزوریوں کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ روسی ایرو سپیس فورسز یوکرین پر فضائی برتری قائم رکھنے میں ناکام ہوئیں، لاجسٹکس کے مسائل نے سارا کا سار ا معاملہ چوپٹ کردیا۔ یوکرین کے دارالحکومت پر قبضے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور روس کو اپنی حکمت عملی اور جنگی اہداف بدلنا پڑے۔ بحیرہ اسود مین روسی بحری جہاز کی تباہی نے رہی سہی کثر بھی نکال دی۔
تنازعہ کو یہ رخ اختیار کرتا دیکھ کر مغربی ممالک نے یوکرین کی امداد میں اضافہ کردیا، پولینڈ نے ٹی 72ٹینک فراہم کیے، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک نے آرٹلری اور دیگر ہتھیار فراہم کیےجس سے یوکرینی ڈیفینسز کو مستحکم کرنے میں مدد ملی۔
یوکرین کئی سینئر روسی افسروں کو ہلاک کرنے میں کامیاب رہا اور موبائی ائیر ڈیفنس کے ذریعے روس کی فضائی برتری کو بھی مسلسل نقصان پہنچاتا رہا۔بیس فیصد روسی ٹینک تباہ کردیے گئے۔اس جنگ میں ترک ڈرونز کی صلاحیتوں صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔
اب روسی افواج دارلحکومت کیف کا محاصرہ چھوڑ کر مشرقی یوکرین میں مرتکز ہورچکی ہیں۔ اہداف بدل چکے ہیں اور یوکرینی عوام اور افواج کا جذبہ ابھی قائم و دائم ہے لیکن روسی معیشت کو تاریخ کی سخت ترین پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلا ت کا سامنا ہے۔ لیکن پیوٹن کی اس ناکامی سے دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کے جی بی کا سابقہ افسر انتہائی ذہین اور بہترین منصوبہ ساز ہے۔ جنگ تو جرنیلوں نے لڑنی ہوتی ہے لیکن بطور صدر پیوٹن نے 2014کے بعد سے ایسی حکمت عملی اپنائی جس سے پابندیوں کے کم سےکم اثرات روسی معیشت پر مرتب ہوئے۔ ڈالر پر کم انحصار ، غیر روایتی کرنسیوں اور سونے کو بطور ریزرو استعمال نے روسی معیشت کو زمین بوس ہونے سے بچا رکھا ہے۔ حالیہ مہینوں میں یورپ کو روسی تیل اور گیس کی سپلائی میں کوئی تعطل نہیں آیا لیکن پابندیوں کے بعد روس کی جانب سے یہ شر ط عائد کی گئی کہ روسی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت روبل میں ادا کی جائے۔ ایسے اقدامات سے روبل کی قدر بھی مستحکم ہوئی اور یہ بھی ثابت ہو ا کہ عالمی معیشت پر ڈالر اور امریکہ کی اجارہ داری کو ختم کرنا مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ آنے والے دنوں میں عالمی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں متوقع ہیں کیوں کہ جنگ ابھی باقی ہے۔۔۔