اسلام آباد (پاک ترک نیوز)
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نےملزمان کے ای سی ایل سے نام نکالے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ بینچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کررہےہیں۔
عدالت عظمیٰ نے 18مئی کو سوموٹو نوٹس لیا جب موجودہ مخلوط حکومت پر الزام لگا کہ وہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر اعلیٰ سیاسی شخصیات کے کیسوں کی تحقیقات پر اثر انداز ہورہی ہے اور تفتیشی افسران کے تبادلے کیے جارہےہیں۔
گزشتہ سماعت میں عدالت نے تمام کرپشن کے کسیز میں تفتیشی افسران کے تبادلوں پر پابندی عائد کری تھی۔
ٓآج کی سماعت میں چیف جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل رولز میں 22اپریل کو تبدیلیاں کی گئیں اور اس نے اربوں کی کرپشن اور ٹیکس چوری میں ملوث افراد کے نام نکال دیے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کی جانب سے بطور کابینہ رکن قواعد کی تبدیلی کی منظور مفادات کا ٹکراو ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارک دیا کہ نیب نے کہا تھا کہ 174نام ای سی ایل سے نکالنے سے پہلے ادارے سے مشاورت نہیں کی گئی۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف سے پوچھا گیا کہ "قواعد کے مطابق، بدعنوانی، دہشت گردی، ٹیکس چوروں اور قرضوں کے نادہندگان سے متعلق مقدمات کا سامنا کرنے والے بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ کس کے کہنے پر کابینہ نے ٹیکس چوروں اور بدعنوانی سے متعلق قوانین میں ترمیم کی؟” .
جسٹس نقوی نے کہا کہ کابینہ کے ارکان نے بھی قواعد سے فائدہ اٹھایا ہے۔ "وہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟”
جسٹس اختر نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ کار ہے جس کے تحت کیس کا سامنا کرنے والے وزیر کو متعلقہ فائل موصول نہیں ہوتی؟ "ہم جانتے ہیں کہ وفاقی وزراء پر ابھی تک صرف الزامات ہیں۔ لیکن انہیں خود ایسی میٹنگز میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔”جسٹس احسن نے کہا کہ کیا ایسی تبدیلیاں سرکولیشن سمری کے ذریعے لائی جا سکتی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ کابینہ کا فرض ہے کہ ہر کیس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔
نیب نے تبادلوں سے متعلق رپورٹ جمع کرادی۔ نیب کے وکیل حسن اکبر نے کہا کہ نو فلائی لسٹ میں شامل 174 افراد کو اینٹی گرافٹ واچ ڈاگ کی سفارش پر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے نام ای سی ایل سے کب نکالے گئے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کا کیا طریقہ کار ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کچھ ایس او پیز ہیں جس کے بعد نام ڈالے گئے۔
نیب نے اپنے افسران کے تبادلوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی۔ وکیل نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل افسران کے تبادلے کی سفارش کرتا ہے جس کے بعد چیئرمین ہدایات جاری کرتے ہیں۔
جسٹس مظہر نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد نظرثانی کا طریقہ کار ختم ہو گیا۔