ترکی: 266 خواتین گھریلو تشدد اور جنسی جرائم کے باعث قتل

گذشتہ سال ترکی میں 266 خواتین اپنے شوہروں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہاتھوں قتل ہو گئیں تھیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خواتین پر تشدد روکنے کے لئے نیا منصوبہ متعارف کروا دیا ہے جس کے تحت پانچ مرکزی اہداف حاصل کئے جائیں گے۔ اس کے لئے 28 حکمت عملی تیار کی گئی ہیں جبکہ 227 ایکشن پلان بنائے گئے ہیں۔
وہ دارالحکومت انقرہ میں این جی اوز، اعلیٰ سرکاری حکام اور قانون ساز ادارے کے اراکین سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ خواتین پر ہونے والے تشدد کو روکنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے ئے ہر ممکن قانون سازی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے سے روکنے کا ایک منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے اور پارلیمنٹ میں جلد ہی قانون سازی کی جائے گی۔ منصوبے کے خدوخال بیان کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا گھریلو تشدد اور خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کو کم کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ترکی نے حالیہ تین ماہ قبل خواتین کے "استنبول کنونشن” سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
صدر ایردوان نے کہا کہ مخالفین نے استنبول کنونشن سے ترکی کی علیحدگی کو ایک پروپیگنڈے کے تحت بدنام کرنا شروع کر دیا ہے کہ حکومت خواتین پر ہونے والے تشدد اور جنسی جرائم کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ خواتین پر تشدد اور جنسی جرائم کو روکنے کی جنگ نہ استنبول کنونشن میں شمولیت سے شروع ہوئی تھی اور نہ ہی اس سے علیحدگی پر ختم ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین پر ہونے والے ہر قسم کے جرائم کے محرکات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کئی بچے خواتین پر تشدد کو ایک عام سے بات سمجھتے ہیں اور مستقبل میں یہی بچے اس جرم میں ملوث ہو رہے ہیں۔ خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد سے ترک معاشرے میں ڈپریشن اور جرائم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے۔ خواتین پر تشدد صرف ترکی ہی نہیں دنیا بھر کے ممالک کا مسئلہ ہے۔
صدر ایردوان نے کہا حکومت اس جرم کو مؤثر قانون سازی کے ذریعے ختم کرے گی۔ خواتین کو ہر قسم کے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد سے محفوظ کیا جائے گا۔ 2007 میں حکومت نے جو قانون بنایا تھا اسے مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ حکومت ہر واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے تاکہ دیکھا جائے کہ خواتین پر گھریلو اور جنسی تشدد کے اصل محرکات کیا ہیں؟ ملک کی تمام 81 صوبائی حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین پر تشدد کی اصل وجوہات اور ان کے تدارک کے لئے اپنی تجاویز اور سفارشات بھیجیں تاکہ مؤثر قانون سازی میں مدد ملے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More