عثمانی دور کے استنبول میں غیرملکیوں کو رمضان المبارک کیسا لگا ؟

 

تحریر:یوسف کامدان

اٹھارہ سو چالیس میں امریکا سے تعلق رکھنے والے ایک 28 سالہ عیسائی مشنری ہوراٹیو ساؤتھ گیٹ نے اپنے آرچ بشپ کے حکم پر عثمانی سرزمین کا دورہ کیا۔ 8 دسمبر کی دوپہر تھی جب وہ توپ کی آوازسن کر چونک گیا پھر اسے بتایا گیا کہ اگلے دن رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہوگا ۔
عیسائی مشینری ساؤتھ گیٹ کے لیے استنبول میں رمضان المبارک زندگی کا ایک یادگار تجربہ بن گیا ۔ اپنے مشاہدات میں ساؤتھ گیٹ نے لکھا استنبول رمضان المبارک کے دوران ایک ہلچل والا تجارتی مرکز بن گیا ۔بازار کھلے ہیں اور کاروبار جاری ہے، اگرچہ اپنی مطلوبہ سرگرمی اور جوش کے ساتھ نہیں،وہ اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں۔
"روزے کے تھکا دینے والے اثرات اور موسم روزمرہ زندگی کے معمولات اور کاروبار کو دبا دیتا ہے ۔ جہاں تک موسم اور جسم اجاز ت دیتے ہیں ، وہ اسے دینی معمولات میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارتے ہیں اور گھر میں بھی قرآن مجید پڑھا جاتا ہے ۔ ”
عیسائی مشنری ساؤتھ گیٹ نے ترکی کے ساتھ آرمینیا ، کردستان ، فارس (ایران ) اور میسوپوٹیمیا(عراق ۹ اور دی پریزنٹ سیٹ کا سفر بھی کیا اور دو سفرنامے لکھے ۔ مسلم ممالک میں قیام کے دوران سااؤتھ گیٹ نے قرآن مجید اور اسلامی فقہ کے مطالعے میں بھی گہری دلچسپی لی ۔ اس کی ایک کتاب قرآنی آیت سے شروع ہوتی ہے جو روزے کا حکم دیتی ہے ۔
ساؤتھ گیٹ کا سفر مشرق کو سمجھنے میں مغرب کی گہری دلچسپی کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ ایک مغربی شہری کے نزدیک اسلامی دنیا کی نمائندگی کئی صدیوں تک عثمانیوں نے ہی کی ۔ یورپ اور ایشیا میں پھیلے منفرد شہر استنبول سیاحوں کے دل کو چھولیتا ہے ۔ استنبول نشیبی پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے ، شاندار مساجد اور میناروں سے آراستہ ہے ۔ ان کے رنگ برنگے سامان سے بھرے بازار اور سڑکوں پر کھیلتے بے فکر بچے ۔ اتنا ہی نہیں نقل وحمل کے نئے جدید طریقے جیسے کہ ریلوے اور بھاپ سے چلنے والے جہازوں نے بھی مغرب کے باشندوں کو مشرق کھوجنے کی راہ دکھائی اور 18 ویں اور 19 ویں صدی میں مشرق دیکھنے کی خواہش رکھنے والے تین براعظموں پر حکمرانی کرنے والی عثمانی سرزمین پر چلے آئے ۔
مسافروں کی ان بڑی بھیڑ کے ساتھ عیسائی مشنری بھی ترکی پہنچے ۔ ان میں زیادہ تر عیسائیوں کے فرقے پروٹسٹنٹ سے تعلق رکھتے تھے جو قوموں کی اصلاح کے لیے جوش سے کم کررہے تھے ۔ انہوں نے اپنی مذہب کی تبلیغ کے ساتھ اپنے پیچھے ایسا ادبی ذخیرہ بھی چھوڑا جو ہمیں اس دور کے مسلمانوں اور رمضان المبارک سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے ۔

پانی کے ساتھ ساتھ اذان کی آوازیں آتی ہیں
عیسائی مشنری ساؤتھ گیٹ جب استنبول پہنچا تو یہ گرمیوں کا موسم تھا ۔ وہ لکھتا ہے رمضان المبارک میں گرمیوں کے روزے بہت مشکل تھے خاص طور پر غریب مزدوروں کے لیے جنہیں صبح سے شام تک کام کرنا پڑتا ہے۔
ایک بار ساؤتھ گیٹ کو کشتی پر دوردراز گاؤں جانا ہوا ۔ کشتی والے سارادن چپو چلاتے رہے اور جیسے ہی سورج غروب ہوا ۔ بندوق کی آواز آئی اور ہرطرف سے اذان کی مسحور کن صدائیں گونجنے لگیں ۔ یہ روزے کا وقت ختم ہونے اور افطاری کا وقت شروع ہونے اعلان تھا ۔
دن بھر چپو چلانے والے کہار بظاہر تھک چکے تھے لیکن انہوں نےکچھ بھی کھائے پیے بغیر بڑے صبر کے ساتھ دن گزارا اورغروب آفتاب کے وقت وہ افطارکے لیے تیار ہوگئے ۔اس موقع کی منظر کشی کرتے ہوئے ساؤتھ گیٹ لکھتا ہے ۔ جیسے ہی موذن کی اذان پانی کی لہروں کے ساتھ گونجی ۔ کہاروں نے چپو رکھ دیئے اورسحری سے اب تک کھانے سے جو پرہیز کررکھاتھا۔ اسے ختم کرتے ہوئے جو دستیاب تھا اسے خوب کھایا اور پیا ۔ اورپھر سے لہروں پر چپو چلانے لگے ۔
ساؤتھ گیٹ افطار کے بعد غروب آفتاب کے نظارے کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔ سورج کے ڈھلتے ہی پوری مسلم آبادی اچانک بیدار ہونے لگتی ہے۔ دن کے وقت عیسائیوں کے لیے چھوڑی ہوئی کشتیاں ترکوں سے بھرنے لگتی ہیںاور وہ اپنے ہاتھوں میں لاٹھی لیے رات کے توپ کا اطمینان سے انتظار کرتے ہیں۔ہرراستے پرلوگوں کا ہجوم نظرآتا ہے ۔ بیکریاں پر خریداری کرنے والوں کا رش لگ جاتا ہے۔ اس دوران باورچی اپنے تیار کیے ہوئے مزے دار اور انتہائی نفیس کھانوں کو قطار میں رکھ کر کھانے والوں کی بھوک بڑھاتے ہیں ۔

اٹھارویں صدی کے افطار کے وقت کا استنبول

استنبول میں رمضان المبارک کا مشاہدہ کرنے والے مغربی باشندوں میں سے ایک برطانوی سیاست دان ایڈمنڈ گریمانی ہورنبی کی اہلیہ تھیں، جن کا انتقال 1866 میں ہوا۔
استنبول میں قیام کے دوران ہورنبی نے رمضان المبارک کو ایک مغربی باشندے کی سادہ لوحی کے ساتھ دیکھا ۔ اور لکھا یورپ میں مختلف قوموں کی ثقافتوں کے ملاپ نے اصلیت ختم کردی ہے جس کے ذمہ دار ٹرینیں اور بھاپ کے جہازہیں جس نے آمدورفت کو آسان بنا کرمقامی ثقافتوں کو ختم کردیا ۔ اب یورپ کے ایک کنارے سے دوسرے طرف جس شخص کو بھی سفر کا موقع ملتاہے وہ ایک جیسی ثقافت کا سامنا ہی کرتا ہے ۔لیکن ترکی میں عثمانی دور کی ثقافت کافی حد تک اصلی ہے ۔ خاص طور پر رمضان کا مہینہ ایک ایسا دور ہے جب مشرقی ماحول پھر سے زندہ ہو جاتا ہے۔
’’اس لیے یہ (رمضان) ایک یورپی کے لیے سب سے دلچسپ وقت ہے، جو گلیوں میں ٹہلنے اور کتابوں کے مطالعہ سے زیادہ محمدی زندگی کے کردار کے بارے میں زیادہ بصیرت حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
ہورنبی افطار کے بعد کے تاثرات کے ساتھ اپنی داستان جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ افطار کے بعد ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اور سگریٹ جلاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد، وہ مزید کہتی ہیں، مؤذن کی تیز آواز مؤمنوں کو نماز تراویح کے لیے بلاتی ہے۔
"یہ وہ وقت ہے جب کسی کو مسجدوں میں جاکر دیکھنا چاہیے۔ مشرقی فن تعمیر کے ان شاہکاروں میں سے کچھ کی سادہ عظمت صرف محسوس کرنے کے لیے ہے، بیان کرنے کے لیے نہیں۔ ”
نماز ختم ہوتے ہی مساجد کے باہر ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے ۔ ہجوم اتنا زیادہ ہے کہ آپ مرکزی راستوں سے مشکل سے گزر سکتے ہیں، کیفے اور دکانوں کے سامنے کی تمام نشستیں بھر چکی ہیں ۔ مساجد میں روشنی بڑھ گئی ہے۔ ایک مینار سے دوسرے مینار تک پھیلی ہوئی رسی پر، پھولوں، جانوروں، پرندوں، بحری جہازوں اور دیگر چیزوں کی نمائندگی کرنے والے ذہانت سے لٹکے ہوئے لیمپوں سے بنی شکلیں، ہوا میں بلندی پر جھول رہی ہیں،”
لیکن اتنے ہجوم کے باوجود کوئی شور نہیں ، کوئی دباؤ یا دھکا نہیں لگ رہا ۔ اس بھیڑ میں ایک منظم اور پرسکون روانی ہے ۔یہ مشاہدہ پورے کا پورا بہت حیرت انگیز ہے اور آپ پر ظاہر کرتا ہے کہ آپ ہزار داستان کی مشہور عربی راتوں میں سے کسی ایک کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More