سہیل شہریار
پاکستان کی ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی موجودہ اتحادی حکومت کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے مسلسل ایک بھنور سے نکل کر دوسرے میں پھنسے جا رہی ہے اور بظاہر بات تجربہ کار معاشی ٹیم کے کنٹرول سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ اب سیاسی محاذ پر پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی شکست کے بعد صورت حال مزید ابتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جس میں ڈالر کی قدر میں تیزی کے ساتھ ریکارڈ اضافہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ جبکہ ایسی صورتحال میںماضی میں ڈالر کے نرخ کو ایک معقول حدتک رکھنے کے لئے مارکیٹ میں مداخلت حکومتوں کا معمول رہا ہے ۔
آج سے ٹھیک چار برس قبل2018میں ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قیمت 128روپے تھی ۔جو آج ہی کے دن گذشتہ برس 2021میں 32روپے کے اضافے سے 160روپے پر پہنچ کر مستحکم ہو چکی تھی۔ تاہم رواں سال ماچ کے آغازمیں ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کے بڑھتے ہی ڈالرکو پر لگ گئے اورصرف دو ہفتوں میں ہی اسکی اوپن مارکیٹ میں قیمت 180روہے سے تجاوز کر گئی۔ جبکہ ڈالر کے نرخ میں اضافے کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا جس میں مارکیٹ کے کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ چند کرم فرماؤں کی مہربانیان بھی شامل تھیں۔ نتیجتاًجب تحریک انصاف کی حکومت کوعدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا اور شہباز شریف نے 11اپریل کوبطور وزیر اعظم اپنے عہدے کا حلف لیا توڈالر منڈی میں 187روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔
آج موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے 101دن ہو چکے ہیں اور کھلی منڈی میں ڈالر کا نرخ 227روپے بتایا جا رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈالر آج مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے ۔اور ایک بار پھر منڈی کے کھلاڑیوں نے اپنا مذموم دھندا جاری رکھا ہوا ہے ۔ اور اب تو اس بہتی گنگا میں نجی بنک بھی خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کیونکہ آئی ایم ایف نے معاہدے میں ڈالر کے مارکیٹ میں اپنا نرخ خود طے کرنے کی شرط بھی رکھی ہے۔ چنانچہ حکومت اور خصوصاً بنک دولت پاکستان (سٹیٹ بنک) اب ملک میں ڈالر کے بے لگام اضافے کا سدباب کرنے کے لئے مارکیٹ میں مداخلت نہ کرنے کے پابند ہیں ۔
یہ 2016کا واقعہ ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر کے 106روپے تک پہنچ جانے پر شیخ رشید نے قومی اسمبلی میں تب کے وزیر خزانہ اسحاق ڈارکو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگراب ڈالر کا نرخ اب سو روپے سے نیچے آ گیا تو وہ اپنی اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو جا ئیں گے۔ اس کے جواب میں اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا کہ ایسا ایک ہفتے کے اندر ہو جائے گا ۔مگر شیخ صاحب یقین دہانی کروائیں کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے۔ بہت سے دوستوں کو یاد ہوگا کہ تب ایسا ہی ہوا تھا اور سات دنوں کے اندر ڈالر کا نرخ کم ہوکر 96سے98روپے پر آگیا تھا۔ بعد ازاں اسحاق ڈار نے اپنے ایک انٹرویومیں بتایا تھا کہ انہوں نے پاکستانی کرنسی مارکیٹ کے چار بڑوں کو فون کرکے ڈالر کے نرخ میں کمی کو یقینی بنانے کے لئے کہا تھااور یہ بھی کہا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں حکومت اتنا ڈالر مارکیٹ میں ڈال دے گی جو انہیں دیوالیہ کرنے کے لئے کافی ہونگے۔
مگر اب نہ تو اسحاق ڈار وزیر خزانہ ہیں اور نہ ہی ملک کی معیشت کی حالت چھ برس پہلے جیسی ہے۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ آئی ایم ایف معاہدے نے حکومت کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں۔چنانچہ موجودہ حالات میں شاید اسحاق ڈار بھی کچھ نہ کر پاتے۔جہاں تک موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا تعلق ہے ۔وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور اسحاق ڈار کے متضاد انکے منڈی کے سب بڑوں سے ایسے ذاتی مراسم ہیں کہ اسحاق ڈار کی طرح ان پر دباؤ بھی نہیں ڈال سکتے۔ اور اس سے بڑھ کر نجی بنکوں کی جانب سے موجودہ صورتحال کو جس ظرح استعمال کیا جا رہا ہے یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔قصہ مختصریہ ہے کہ فوری طور پر ملک میں ڈالر کی اس اڑان کو روکنے والاکوئی نظر نہیں آ رہا ۔ اور جب تک معیشت نہیں سنبھلتی ڈالرکی قدر میںاستحکام ممکن دکھائی نہیں دیتا۔