سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تجارتی جنگ شروع ہو گئی

سعودی عرب نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے ہیڈ آفسز دبئی سے ریاض منتقل کرنے کے لئے پُرکشش مراعات کی پیشکش کی ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان "پروگرام ہیڈ کوارٹر” کی زاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں جسے دبئی میں موجود کثیرالقومی کمپنیوں کے صدر دفاتر کو ریاض منتقل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
سعودی عرب کے اس فیصلے سے خلیج میں اس کے سب سے اہم اتحادی متحدہ عرب امارات کچھ ناراض نظر آتا ہے۔ سعودی عرب نے دبئی میں موجود انفارمیشن ٹیکنالوجی، فنانس اور آئل سروسز کی بڑی کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز ریاض منتقل کرنے کے لئے انہیں پُرکشش مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب کو خطے کا کاروباری مرکز بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ مختلف شعبوں کے غیر ملکی سرمایہ کار یہاں اپنے صدر دفاتر منتقل کریں۔
اس ویژن کی تکمیل کے لئے سعودی عرب نے جن مشاورتی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی ہیں ان میں سے ایک کمپنی کے ایگزیکٹو نے میڈیا کو بتایا کہ سعودی عرب کثیرالقومی کمپنیوں کے ریجنل ہیڈ کوارٹرز ریاض لانا چاہتا ہے تاکہ کمپنی کی سینئر قیادت یہاں کام کرے اور فیصلہ سازی کے تمام امور سعودی عرب میں انجام دیئے جائیں۔
سعودی عرب کا موقف ہے کہ دبئی کے مقابلے میں سعودی عرب ایک بڑی مارکیٹ ہے اور ریاض خطے کا کاروباری مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سعودی ولی عہد نے 27 جنوری کو ایک سرمایہ کاری کانفرنس طلب کی ہے جس میں سعودی عرب کے سرکاری انویسٹمنٹ اور ویلتھ فنڈز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد کثیرالقومی کمپنیوں کو ریاض میں اپنے صدر دفاتر منتقل کرنے کے لئے راضی کرنا ہے۔
اسی طرح کی ایک کانفرنس 2018 میں بھی ہوئی تھی لیکن اس سال سعودی نژاد صحافی جمال خشوگی کے قتل کے باعث کئی کمپنیوں نے ریاض آنے سے انکار کر دیا تھا۔
سعودی عرب نے کثیرالقومی کمپنیوں کو ریاض میں ہیڈ آفسز کھولنے پر 50 سال کے لئے ٹیکس چھوٹ دینے اور سعودی شہریوں کو نوکری دینے کا کوٹہ ختم کرنے جیسی پُرکشش مراعات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سعودی عرب نے مستقبل میں کی جانے والی قانون سازی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
سعودی عرب مستقبل کے کاروباری مرکز کے لئے دارالحکومت ریاض سے 59 کلو میٹر "کنگ عبداللہ فنانشل ڈسٹرکٹ” بنا رہا ہے جہاں بلند و بالا عمارات کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ ان میں سے کئی عمارتیں مکمل ہو چکی ہیں۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ بڑی کثیرالقومی کمپنیاں اپنے ہیڈ آفسز دبئی سے ریاض منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دبئی سعودی عرب کے مقابلے میں ایک لبرل معاشرہ ہے۔ یہاں رابطوں کا انفراسٹرکچر بہتر ہے۔ بعض کمپنیوں کو سعودی عرب کے سخت مذہبی اثر و رسوخ کے اعلیٰ عہدیداروں پر بھی تحفظات ہے تاہم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مکمل آزادی دینے کا وعدہ کیا ہے۔

Saudi ArabUAE