ٹرمپ کارڈ اور بین الاقوامی سازش

 

تحریر :سلمان احمد لالی
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب میں وزیر اعظم کے وسیم اکرم پلس اور بعض نقادوں کےمطابق انکی سب سے بڑی سیاسی غلطی عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی جس سے یہ اخذکرنا مشکل نہیں کہ ق لیگ کے ساتھ اپوزیشن کے معاملات طے پا چکے ہیں۔
اتوار کو پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد پریڈ گراونڈ میں غیر معمولی طور پر عظیم الشان جلسے میں وزیر اعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کوبین الاقوامی سازش کا شاخسانہ قراردیا۔ انہوں جیب سے نکال کر ایک خط بھی دکھا یا کہ جس کے حوالے اسے انکا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کو دی گئی تحریری دھمکی ہے۔بعد وزیر خارجہ نے اے آروائے کو بیپر دیتے ہوئے کہا کہ اس خط کےمندرجات سے پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ آگا ہ ہے ۔
تاہم نقادوں اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس تقریر میں وزیر اعظم کوئی سرپرائز دینے میں ناکام رہے ہیں اور انکے پاس اپنی حکومت اور حالات کو رخ اپنے حق میں موڑنےکیلئے کوئی ٹرمپ کارڈ موجود نہیں ہے جس کا کہ وہ دعوی کرتے آئے ہیں۔
مبصرین کی جانب سےعمران خان کی تقریر کو ملک کے طاقتور حلقوں ، اتحادی جماعتوں اور منحرف اراکین کو دباو میں لانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔جبکہ بعض ماہرین کے مطابق یہ جلسہ آئندہ انتخابات کیلئے سیاسی مہم کا آغاز ہے ۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر سے منسلک معروف تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر لکھا کہ
کہ میرے خیال میں عمران خان نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔ آج کی ریلی کا مقصد طاقت اور عوامی حمایت کا مظاہرہ کرنا تھا۔ ان کی تقریر ایک انتخابی مہم تھی، اور یہ انکے حامیوں میں بہت مقبول ہوگی

اگر پاکستان میں صحافیوں پر نگاہ دوڑائی جائے تووہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتے ہیں ۔ ایک گروہ عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے انکے دعووں پر سوال اٹھاتا نظر آتا ہے جبکہ دوسرا گروہ جس میں شامل بہت سے صحافی ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں ، عمران خان کے بین الاقوامی سازش کے دعووں پر نہ صرف یقین کرتے نظر آتے ہیں بلکہ وہ حالیہ برسوں میں بہت کھل کر وزیر اعظم کے خلا ف عدم اعتماد کے حوالے اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہےہیں۔
ا س معاملے کو لے کر پورے پاکستانی معاشرے میں بڑی تقسیم نظر آتی ہے جو آنے والے دنوں میں وسیع تر ہو سکتی ہے اور شاید کشیدگی پر منتہج ہو۔
پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا بالخصوص پاکستان مخالف بیانیے میں سب سے آگے رہنے والے رپبلک ٹی وی پر کل جشن کا سماں تھا جو عمران خان کی حکومت کے ممکنہ طور پر ختم ہونے کے معاملے مباحث منعقد کر رہا تھا۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھارتی چینلز پر چلنے والے مواد کی تشہیر کی جائے تو شاید عمران خان کے خط والے دعووں پر انکے حامیوں کا یقین مزید بڑھ جائے اور اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی غم و غصہ میں اضافہ ہو۔
اگر ٹوئٹر پر نظر ڈالی جائے تو ہمیشہ کی طرح وہاں عمران خان کے مداحوں کا راج نظر آیا جو اپنے لیڈر کا شدت سے دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں باجوہ ، اسٹیبلشمنٹ سمیت کئی ٹرینڈ چل رہے ہیں ۔ اپوزیشن کے حامی بھی پیچھے نہیں ہیں انکی جانب سے بھی عمران خا ن جلسے اور تقریر کے ممکنہ اثرات کو زائل کرنے اور انکے دعووں کی صداقت پر سوال اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کا دعویٰ واقعی درست ہے؟ کیا واقعی بین الاقوامی سازش تیار کی گئی ہے انکی حکومت کے خلاف؟ کیا اس خط کے مندرجات واقعی دھمکی آمیز ہیں ؟
ان سوالوں کا جواب کیسے ملے گا؟ کیا عمران خان بعض قابل اعتماد صحافیوں اور دیگر اہم شخصیات کو اس مبینہ طور پر کانفیڈنشل خط کے مندرجات دیکھائیں گے؟ ابھی تک ان سوالوں کا جواب ملنا ممکن نہیں لگتا۔ لیکن یہ تاثر ضرور ملتاہے کہ اس عالمی سازش میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔
اپوزیشن نے ظاہر ہے اس دعووں کو رد کیا ہے اور ان کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے مذاق اڑایا ہے۔ انکے پر اعتماد رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن ارکان اور حامیوں کی بڑی تعداد کو یقین ہے کہ یہ خط بھی عمران کے خان کے ٹرمپ کارڈ کی طرح bluff سے زیادہ نہیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے الزامات بہت سنجیدہ ہیں لیکن انکی تصدیق بہت ضروری ہے ۔ اگر وہ دعوی ٰ سچ ہے تب بھی اور جھوٹ ہے تو بھی عوام کا اسکی صداقت کے حوالے جاننا بہت ضروری ہے۔

 

@salmanlalipak

@imrankhan#noconfidencemotion#pakistan_political_situation#PakTurkNews#پاک ترک نیوز،#پاکستان،#عمران خان،