نیویارک (پاک ترک نیوز)
پاکستان نے افغانستان میں پاکستانی طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف اپنے فضائی حملوں میں لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا ہے۔ یہ رواں سال میں اب تک اسلام آبادکے پڑوسی ممالک کے علاقوں میں گروپوں کو نشانہ بنانے کا دوسرا واقعہ ہے۔
بین الاقوامی جریدے فوربز کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اس طرح کے حملوں کے لیے لڑاکا طیاروں کا استعمال پڑوسی ملک ایران سے بالکل متصادم ہے۔ جو اپنی سرحدوں سے باہر غیر ریاستی عناصر پر حملہ کرنے کے لیے ہمیشہ بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز پر انحصار کرتا ہے۔اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے افغانستان میں کتنی دور تک پرواز کی لیکن اسلام آباد نےدعویٰ کیا ہے کہ لڑاکا طیارےپاکستانی طالبان سے تعلق رکھنے والے متعدد ٹھکانوں کے خلاف حملے میں استعمال ہوئے۔ یہ فضائی حملے دو روز قبل ایک خودکش بم حملے میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کا بدلہ تھے۔ افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے حملوں میں آٹھ بے گناہ افراد مارے گئے۔
پاکستان نے اس سے قبل جنوری میں ایران کے خلاف غیر معمولی فضائی حملے کیے تھے جب تہران نے میزائل اور ڈرونز، مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے کیمپوں کے خلاف لانچ کیے تھے۔ اسلام آباد نے ایرانی سرزمین میں عسکریت پسندوں کے سات مبینہ اہداف کے خلاف ڈرونز، راکٹوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کی ایک قسمکے استعمال سے جوابی کارروائی کی تھی۔
یہ قیاس کیا گیا تھا کہ اسٹینڈ آف ہتھیار سب سونک رعد ایئر لانچ کروز میزائل تھے ۔ دوسری جانب پاکستانی عسکری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ طیارے اور ڈرون حملے کرتے ہوئے ایرانی فضائی حدود کے اندر 12 میل تک گئے۔
طالبان کے برعکس، ایران کے پاس فضائیہ اور زمینی بنیاد پر اہم فضائی دفاع ہے، جس کی وجہ سے ایرانی فضائی حدود کے اندر لڑاکا طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے فضائی حملہ کرنا افغانستان کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ خطرناک ہے۔ طالبان پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ فضائی دفاعی نظام بنا کر اس خطرے سے نمٹنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ضروری سامان کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔