شام میں زلزلہ سے جاں بحق افراد کی تعداد 2500سے تجاوز کر گئی، شامی حکومت کی امداد کی اپیل

دمشق (پاک ترک نیوز)
شام میں پیر کے روز آنے والے زلزلوں میں مرنے والوں کی تعداد 2500سے تجاوز کر چکی ہے۔جبکہ5 ہزار سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
شام کے سرکاری اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق زلزلوں کے 56گھنٹے بعد شامی حکومت کے کنٹرول علاقوں میں 1250 زیادہ افراد کے جاں بحق ہونے اور 2300زخمیوں کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہونے کی مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دوسری جانب باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں سے شمال مغرب میں کام کرنے والی ایک ریسکیو سروس وائٹ ہیلمٹس کے مطابق اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1,280 سے زیادہ ہو گئی ہے اور 2,600 سے زیادہ زخمی ہیں۔وائٹ ہیلمٹس نے اپنے ٹوئیٹر پر بیا ن میں کہا ہے کہ زلزلے کے 55 گھنٹے بعد ملبے کے نیچے سینکڑوں خاندانوں کی موجودگی کی وجہ سے تعداد میں نمایاں اضافے کا اندیشہ ہے۔
شام کے وزیر صحت نے کہا ہےکہ حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں مرنے والوں کی تعداد 1,250 ہو گئی ہے۔جبکہ زخمیوں کی تعداد 2,054 تک جا پہنچی ہے۔
اسی ضمن میں جنگ سے تباہ حال ملک نے اقوام متحدہ اور تمام رکن ممالک سے امدادی کوششوں، صحت کی خدمات، پناہ گاہ اور خوراک کی امداد میں مدد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ حزب اختلاف کے زیر قبضہ شمال مغربی شام تک رسد حاصل کرنے کے لیے "تمام راستے تلاش کر رہا ہے”، اور اس نے ترکی اور شام میں انسانی ہمدردی کی کاروائیوں میں مدد کے لیے اپنے ہنگامی فنڈ سے 25 ملین ڈالر جاری کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ ترکئی سے شمالی شام کی طرف باب الحوا سرحدی گزرگاہ کی طرف جانے والی سڑک کو نقصان پہنچا ہے جس سے اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں تک امداد کی ترسیل میں عارضی طور پر خلل پڑا ہے۔
دوجارک نے کہا کہ اقوام متحدہ شام کے اندر تنازعہ کی لکیروں کو عبور کرنے کے لیے ایک قافلہ تیار کر رہا ہے۔ لیکن اس کے لیے ممکنہ طور پر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہوگی۔ جس نے خانہ جنگی کے دوران اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔جبکہ ترکیہ میںزلزلے سے متاثر ہونے والے 10 صوبوں میں بسنے والے 15 ملین افراد میں سے شامی مہاجرین 1.7 ملین سے زیادہ ہیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More