اردوان نے ترکیہ کے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا؟

سلمان احمد لالی

ترکیہ کا سب سے بڑا مسئلہ اسکا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے یعنی اسکی بر آمدات در آمدات سے کم ہیں اور تیل، گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے ملک کا امپورٹ بل نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں اگر توانائی کا امپورٹ بل الگ کر لیا جائے تو ملک کا جاری کھاتہ جات کا خسارہ سرپلس میں بدل سکتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ انقرہ مغربی ممالک کے اعتراضات کے باوجود اپنا چھوتھا ڈرلنگ جہاز بحیرہ روم میں گیس کی تلاش کیلئے روانہ کر چکا ہے۔
ترکی صدر اردوان اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکمت عملی میں بہت سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ عمران خان نے بھی ایک وقت میں بحیرہ عرب میں پاکستان کی بحری حدود کے اندر تیل کی تلاش کی کوشش کی اس خواہش اور توقع پر کی کہ پاکستان کا تجارتی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ اندرون ملک تیل کی دریافت سے ختم یا کم ہو سکتا ہے۔
جب یہ کوشش کامیابی سے ہمکنا ر نہ ہوئی تو عمران خان نے ملک کی ایکسپورٹ میں اضافے کی پالیسی اپنائی تاکہ غیر ملکی مالیاتی اثاثہ جات پر بوجھ کم ہو سکے۔ اور پاکستان کو اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی کیوں کہ رواں مالی سال میں پاکستان کی بر آمدات میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن سیاسی عدم استحکام اور موجودہ حکومت کو درپیش معاشی مسائل کے علاوہ وژن کی کمی کی وجہ سے ان پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہا ۔
اردوان اور عمرا ن خان میں ایک اور مماثلت بھی سامنے آئی ہے اور وہ ہے سعودی عرب سے مالیاتی تعاون کی حکمت عملی۔ قارئین کو یادہوگا کہ عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد دومرتبہ سعودی عرب سے مرکزی بینک میں رکھنے کیلئے ڈالرز حاصل کیے اور ادھار تیل کے حصول کا کامیاب معاہدہ کیا جس سے بہت سے مسائل حل کرنے میںمدد ملی۔ اسی طرح اردوان بھی سعودی عرب سے 20ارب ڈالر کی ڈپازت کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔
ترک اخبار دنیا کے مطابق انقرہ کو توقع ہے کہ سعودی عرب ابتدائی طور پر 10ارب ڈالر ترک خزانے میں جمع کروائےگا ۔ جبکہ مڈل ایس آئی کے مطابق 20ارب کی مجموعی مالی امداد کیلئے ٹیکنیکل سطح پر بات چیت جاری ہے۔
حال ہی میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ترکی کا دورہ کیا جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا سبب بنا۔ ا س سے قبل ترکی نے جمال خاشقجی قتل کیس کو سعودی عرب منتقل کردیا۔یہ ہی وجہ ہے کہ ترکی مدد کیلئے روس اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں ہی بلومبرگ نے خبر دی کے ترکی میں جوہری پاور پلانٹ کی تعمیر کیلئے روسی سرکاری فرم روزاٹام نے ترکی کو پندرہ ارب ڈالر فراہم کرے گاجبکہ پانچ ارب ڈالر پہلے ہی موصول ہو چکےہیں۔اسکے علاوہ روزا ٹام نے اس پلانٹ کی تعمیر کیلئے چھ ارب ڈالر سے زائد کی کریڈٹ لائن بھی کھول دی جس میں سے فنڈز کو عارضی طور پر ترک بانڈز اور مرکزی بینک میں رکھا گیا ہے۔
ترکی اسی طرح کی سہولت متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی چاہتا ہے۔
اگر اس طرح کی سہولت انقرہ کو ان ممالک سے بھی میسر آتی ہے تو رواں مالی سال کیلئے بہت سے مالیاتی مسائل حل ہو سکیں گےا ور ترک لیرا کو بھی مستحکم کرنے کے علاوہ افراط زر جیسے مسئلے سے نمٹنے میں مدد ملے گی جس کی اردوان کو بہت ضرورت ہے کیوں کہ آئندہ برس کے وسط میں ترکی میں صدارتی انتخابات معقد ہو رہے ہیں ۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ترکی کے ڈالرکے اثاثہ جات کم ترین سطح پر ہیںکیوں کی گزشتہ کئی برسوں میں لیرا کی قدر کو مستحکم کرنے کیلئے اسحاق ڈار فارمولا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یعنی ڈالر کی قدر کو کم کرنے کیلئے خزانے سے ڈالر مارکیٹ میں بیچے جاتے رہے جس سے ترکی کوسوا ایک سو ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینکنے پڑے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More