امریکہ ، روس مذاکرات :یوکرائن بحران کے حل کی امید ابھی زندہ ہے

 

 

 

 

سلمان احمد لالی

جنیوا میں ایک بار پھر سرد جنگ کی تاریخ دہرائی گئی۔ امریکہ اور روس کے وزرائے خارجہ نے یوکرائن تنازعہ ، کشیدگی کی کمی کے موضوعات پر اہم بات چیت کی۔ دنیا بھر میں اس ملاقات کو انتہائی دلچسبی سے دیکھا جارہا تھا باالخصوص یوکرائن میں جہاں کی حکومت اور عوام روس کے ممکنہ حملے کے انتظار میں دم سادھے بیٹھے ہیں۔
ان مذاکرات کے نتیجہ میں کسی خاص پیش رفت کی امید کسی کو بھی نہیں تھی لیکن ماہرین امید کر رہے تھے کہ شاید ملاقات فوری جنگ کے خطرات کو ٹال دےاور ایسا ہی ہوا بھی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور روس کے وزیر خارجہ سگئی لاوروف نے یوکرائن بحران کو ٹالنے کیلئے مزید سفارتی مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔
بلنکن نے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہا کچھ یوں کیا، "ہمیں آج کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں تھی، لیکن مجھے یقین ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے لیے واضح راستے پر گامزن ہیں۔”
امریکی وزیر خارجہ نے بات چیت کوٹھوس قرار دیتے ہوئے کہا امریکی صدر جوبائیڈن اپنے روسی اہم منصب ولادیمیرپوٹن سے ملاقات کیلئے تیار ہوں گے اگر اس سے اس تنازعے کا حل نکلتا ہو تو۔
روسی وزیر خارجہ نے بھی مذاکرات کو تعمیری اور مفید قرار دیا ہے۔ مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ امریکہ آئندہ ہفتے یوکرین اور نیٹو سے متعلق کریملن کے مطالبات پر تحریری طور پر جواب دے گا۔ مطالبات سے مراد وہ سیکیورٹی گارنٹی کا پروپوزل ہے جو ماسکوکی جانب سے امریکہ کو پیش کیا گیا ۔

اسکے مطابق ماسکو چاہتا ہے کہ نیٹو اور اسکے اتحادی یوکرین اور سابق سوویت ممالک کی نیٹو میں شمولیت پر پابندی عائد کریں اور نیٹو مشرقی یورپ میں اپنی سرگرمیاں کم کرے۔
لاوروف نے اس بات کر عندیہ دیا ہے کہ مغرب اس سیکورٹی پروپوزل کو مان کر اس تناوٗ کو کم کر سکتا ہے۔
لیکن بلنکن نے گفتگو کے بجائے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ماہرین کے مطابق ایسے مذاکرات مزید وقت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اور جب تک روس اپنے بیشتر مطالبات سے دستبردار نہیں ہو جاتا ، بات چیت جاری رہنے کا امکان ہے۔
بین الاقوامی مذاکرات میں یہ روش عام ہے کہ مطالبات زیادہ کیے جائیں اور کچھ بنیادی مطالبات مان کر مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچا دیاجائے۔ یوں ممکن ہے کہ ماسکو میں اس بات کا ادراک ہو کہ انکے تمام مطالبات نہیں مانے جاسکتے اسلئے روسی مذاکرات کاروں کی جانب سے کچھ پر راضی ہونا بالکل حیران کن نہیں ہوگا۔ اس حقیقت کا ادراک امریکی اور مغربی ممالک کے سفارتکاروں میں بھی ہے کہ روس تمام مطالبات میں سے کچھ بنیادی مطالبات کو منوائے بنا کشیدگی میں کمی نہیں کرے گا۔ ایسے بین الاقوامی سطح پر دونوں فریقین کو فیس سیونگ بھی چاہیئے ہوگی اور اپنے اپنے ملکوں میں بھی وہ یہ کریڈٹ لینا چاہیں گے کہ انہوں نے کامیابی سے سفارتکاری کے ذریعے ایک بڑی جنگ کو ٹالا ہے۔ فریقین مذاکرات کی میز پر ایک دوسرے کو کچھ رعایتیں دینے کا سوچ کر ہی بیٹھتے ہیں۔ یہ ہی دراصل ڈپلومیسی کا فن ہے۔
آنے والے مذاکراتی دور میں ایسا بہت کچھ سامنے آئے گا جس سے فریقین کے اصل مقاصد اور محرکات عیاں ہو سکیں گے۔

تحریر: سلمان احمد لالی

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More