آرمینیا کی اکثریتی آبادی مسیحیت کی پیروکار ہے لیکن پھر بھی یہ ملک ایران کے قریب ہے جبکہ آذربائیجان کی اکثریتی آبادی کا مسلک وہ ہی ہے جو ایران کا ہے اس کے باوجود آذربائیجان ایران کے بجائے اسرائیل کے زیادہ قریب ہے۔
آذربائیجان کے آرمینیا کو شکست دے کر نگورنوکاراباخ واپس لینے کے بعد سے ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی دیکھی جارہی ہے ۔ جس میں ترکی
اور پاکستان کے ساتھ ایرانی سرحد سے صرف 500 کلومیٹر دور فوجی مشقیں کرنے پر شدت آگئی ہے ۔ اس کے جواب میں یکم اکتوبر کو ایران نے بھی آذربائیجان کی سرحد پر فوجی مشقیں شروع کردیں ۔ ایران کی فوجی مشقوں پر آذری صدر الہام علی یوف نے حیرانی کا اظہار بھی کیا ۔ اسی
دوران ٓزربائیجان نے کچھ ایرانی ٹرک ڈرائیورز کو بھی بغیر این او سی آرمینیا جانے سے روکا اور دو کو حراست میں لے لیا۔ یہ کشیدگی ابھی جاری تھی کہ
پیر کو ایران اور آرمینیا کے وزرائے خارجہ کی تہران میں ملاقات کی ۔ ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے آرمینیا کے وزیرِ خارجہ
ارارت مرزویان سے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بات چیت کی۔
اور طے پایا کہ ایران اور آرمینیا کو سڑک کے ذریعے منسلک کیاجائے۔ ایران اور آرمینیا کے تعلقات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل سرحد ہے اور دونوں کے تعلقات بھی کافی پرانے ہیں۔ ایران میں بڑی تعداد میں آرمینیائی لوگ بھی آباد ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایران میں کووڈ ویکسین کی قلت کے باعث ایران سے لوگوں کی بڑی تعداد نے آرمینیا جا کر ویکسین لگوائی ہے۔
لیکن آذربائیجان سے دونوں ممالک کی کشیدگی کی وجہ سے اسے انتہائی اہم لیا جارہا ہے ۔
ایران کا موقف ہے کہ آذربائیجان کے اسرائیل سے مراسم ہیں جبکہ تجزیہ کاروں کے نزدیک آذربائیجان اور ایران کی 700 کلومیٹر طویل سرحد کی وجہ سے ایرانی حکام سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اسے اس کے خلاف استعمال کرسکتا ہے ۔
تہران میں 30 ستمبر کو آذربائیجان کے نئے سفیر سے ملاقات کے دوران ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا: ’ہم اپنے پڑوس میں یہودی قوم کی موجودگی اور ہماری قومی سلامتی کے خلاف اس کی سرگرمیاں برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اس کے خلاف ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔‘
دوسری طرف اسرائیل اور آذربائیجان میں 1992 سے سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ یہ سفارتی تعلقات سوویت یونین سے آزادی کے صرف چھ ماہ بعد ہی قائم ہو گئے تھے۔ فروری 2012 میں اسرائیل نے آذربائیجان کو 1.6 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا اور اس کے بعد بھی اسرائیل کئی مرتبہ اس ملک کو اسلحہ فراہم کر چکا ہے۔
سنہ 2012 میں آذربائیجان میں اسرائیلی سفیر مائیکل لوتم نے کہا تھا’میرے خیال میں آذربائیجان اور ہمارا دنیا کو دیکھنے کا طریقہ یکساں ہے۔ ہم دونوں کو ہی مشترکہ مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں ایسے مسلمان ملک کی ضرورت ہے جو دوستانہ، ترقی پسند اور اسرائیل کی اہمیت کو سمجھنے والا ہو۔‘
اسی سال امریکی میگزین فارن پالیسی نے کہا تھا کہ آذربائیجان اور اسرائیل لوگوں کی اُمیدوں سے زیادہ قریب آ چکے ہیں۔ میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کوئی جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اسرائیل آذربائیجان کے ساتھ اس کی فضائی حدود سے متعلق ایک معاہدہ کر چکا ہے۔
اگر ایسا ہے تو اسے اسرائیل کی سٹریٹجک فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے مگر اسرائیل نے اس کی تردید کی ہے۔ اس وقت آذربائیجان میں
اسرائیلی سفیر نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
باکو میں انڈیپینڈنٹ سینٹر فار نیشنل اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی ڈائریکٹر لیلیٰ علیئیفا کا کہنا ہے ، ’آذربائیجان نے قدرتی طور پر ایرانی اسلامی اثرورسوخ کو نیشن سٹیٹ کے لیے خطرہ سمجھ کر مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب آذربائیجان کے یہودی برادری سے اچھے تعلقات ہیں۔
مگر آذربائیجان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی حکومت کی اسرائیل سے دوستی کے خلاف ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ’آذربائیجان کو فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کرنے والے ملک کا دوست نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیل ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔ وہ لبنان اور غزہ اور ایران میں نہیں جیت سکتا۔
آذربائیجان کی وزارتِ خارجہ کے سابق ترجمان علمان عبداللہییف کے مطابق ’آذربائیجان ہمیشہ سے اپنی جدت کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہم سیکولر لوگ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آذربائیجان مشرقی مسلم ممالک میں پہلا سیکولر ملک ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم نے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔ چاہے وہ اسرائیل ہو یا کوئی اور اسلامی ملک۔‘
ایران اور آذربائیجان کے درمیان تعلق بہت پیچیدہ ہے۔ ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل سرحد موجود ہے، مگر ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ دونوں کا مشترکہ ورثہ ایک ہی ہے۔
ایک وقت تھا جب آذری لوگ سلطنتِ فارس کے ماتحت تھے۔ سنہ 1813 میں پہلی روس ایران جنگ میں گلستان معاہدے کے تحت آذری قوم کو دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا جو لوگ شمال میں تھے وہ سوویت کنٹرول میں رہے اور اب آذربائیجان میں رہ رہے ہیں اور جو لوگ جنوب میں تھے وہ سلطنتِ فارس میں رہے اور اب اسلامی جمہوریہ ایران میں رہ رہے ہیں۔
اس وقت آذربائیجان میں ایک کروڑ آذری رہ رہے ہیں مگر اس سے زیادہ آذری افراد ایران میں رہتے ہیں۔ اندازے کے مطابق ایران میں کوئی دو کروڑ کے قریب آذری رہتے ہیں جو ایران کی کُل آبادی کا 20 فیصد بنتا ہے۔ چنانچہ آذریوں کو دوبارہ متحد کرنے کی خواہش زور پکڑ رہی ہے اور ایران اس سے خوفزدہ ہے۔