ایرانی صدر نے دورہ روس کے دوران وہاںکے ذرائع ابلا غ کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ امریکہ تھا جس نے جوہری معاہدے کی خلاف ورز ی، اسے ٹھیک کرنے کہ ذمہ داری بھی امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔
صدر ابراہیم ریئسی نے کہا کہ ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ویانا مذاکرا ت کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ معاہدے کی بحالی میں رکاوٹ واشنگٹن کا رویہ ہے۔ ابھی تک ہم نے جو دیکھا ہے وہ امریکیوں کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں ہیں ۔ امریکہ نے معاہدے کی باضابطہ خلاف ورزی کی۔
جوہری معاہدہ جسے باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن پر اوبامہ انتظامیہ نے 2015میں بات چیت شروع کی جس کے تحت ایران کی جانب سے اپنے جوہری توانائی کے پروگرام کی سخت نگرانی کے مطالبے کو تسلیم کیا گیا ۔ اسکے بدلے میں ایران امریکہ اور اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹوانا چاہتاتھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے یکطرفہ طور پر 2018میں ایران پر سخت پابندیاں نافذکردیں۔
رئیسی نے کہا کہ معاہدے کے یورپی فریقین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورنہیں کیا اور امریکہ خلاف ورزی سے نمٹنے کیلئے نئے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے۔
ایرانی صدر کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے 15بار اس بات کی تصدیق کی کہ ایران اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھاتے ہوئے معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔
لیکن دیگر فریقین باالخصوص امریکہ نے اپنی ذمہ داریاںنہیں نبھائیں۔
جنوری 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکی صد ر جوبائیڈن نے کہا کہ اگر ایران معاہدے پر عملدرآمد یقینی بناتا ہے کہ تو وہ JCPOAپر واپس آنے کو تیار ہیں۔ تہران کا جوابی موقف تھا کہ امریکہ پہلے پابندیوں کے خاتمے کی شق پر عمدرآمد کرے۔
اگست 2021 میں ایران کے صدر منتخب ہونے والے ابراہیم ریئسی کا کہنا ہے کہ اگر فریقین پابندیاں ہٹانے کیلئے تیار ہیں تو جوہری معاہدے پر پہنچنے کیلئے زمین بالکل تیار ہے۔