ایران ، امریکہ جوہری مذاکرات کا قطر میں میں آغاز

دوحہ(پاک ترک نیوز)
ایران اور امریکہ دوحہ میں جوہری مذاکرات کا یورپی یونین کی ثالثی میں دوبارہ آغاز کر رہے ہیں۔ایرانی مذاکرات کار علی باغیر ی اور امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے ایران رابرٹ میلے بھی دوحہ پہنچ رہےہیں۔
جوہری مذاکرات میں مارچ کے مہینے میں تعطل آیا حالانکہ کہ بیشتر معاملات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
اس جمود کو توڑنے میں یورپی یونین نے اہم کردار ادا کیا جب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے تہران میں ایرانی حکام سے ملاقات کی۔
ایران کا مطالبہ ہے کہ 2015کے معاہدے میں جن معاشی فوائد کا وعدہ کیا گیا تھا وہ اسے ملیں اور یہ معاہدہ دوبارہ لپیٹ نہیں دیا جائے گا اسکی گارنٹی بھی دی جائے۔
اس خبر نے نئی امید پیدا کی ہےکہ یہ معاملہ حل ہوجائے گااور شاید نیا معاہدہ طے پانے کے بعد ایران اپنا تیل عالمی منڈیوں میں بیچ سکے گا۔ اسکے علاوہ پاکستان بھی ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو دوبارہ سے شروع کر پائے گا۔
بعض رپورٹس کے مطابق موجودہ مذاکرات اسلئے بھی اہم ہیں کہ ایرانی ٹیم میں بڑی تبدیلی کی گئی ہے ۔
اور سخت گیر عناصر کو معتدل خیالات کے حامل مذاکرات کاروں سے بدل دیا گیا ہے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ایران بعض معاملات پر کچھ لچک دکھانے کو تیار ہے اور جلد از جلد معاہدے پر دستخط کرنا چاہتا ہے۔
مذاکرات میںایک انتہائی اہم پہلو اسلامی انقلابی گار ڈکور کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا جانا ہے جو ایرانی نقطہ نظر سے انتہائی حساس معاملہ ہے۔
مڈل ایس آئی کے مطابق ایران نے اس حوالے سے لچک کا مظاہرہ کیا تھا تاہم اس کا مطالبہ تھا کہ اگر آئی آر جی سی کو دہشتگردی کی فہرست سے نہیں نکالا جاتا تو کم از کم اسکےمعاشی بازو خاتم الاانبیا کنسٹرکشن ایچ کیو اور دیگر کاروباری اداروں سے پابندیاں ہٹا دی جائیں ۔
ایرانی مذاکرات ٹیم
اس وقت ایرانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ علی باغیری ہیں جابق سفارتکار سعید جلیلی کے دست راست تھے۔ ان دونوں اشخاص نے سفارتکاری کی تاریخ میں مشکل ترین کام سرانجام دیے ۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ دیگر ممالک کے ساتھ کامیابی سے مذاکرات کیے بلکہ ایران کے سخت گیر عناصر کی تنقید بھی برداشت کی ۔
تاہم ابھی حالات بدل رہے ہیں ، باغیری نے اپٹی ٹٰم سے سخت گیر سفارتکاروں کا سفایہ کردیا ہے بالخصوص حامد رضا اصغری کو جو انتہائی با اثر شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ باغیری کارویہ نرم ہو چکا ہے اور وہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر اعبدللہیان کے ساتھ مل کر مارچمیں ہی معاہدے کو حتمی شکل دینے کو تیار تھے اور انہوں نے آئی آر جی سی پر پابندیاں اٹھانے کے مطالبے سے دستبرداری کیلئے بھی ہائی کمان سے منظوری لے لی تھی تاہم جب امیر عبداللہیان نے اس حوالے سے ٹی وی انٹرویو میں بات کی تو انہیں شدید دباو کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے مارچ میں مذاکرات میں تعطل آگیا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق سخت گیر طبقہ امیر عبدللہیان کو وزارت خارجہ سے ہٹانا چاہتا ہے جو انکے مطابق انقلابی نقطہ نظر نہیں رکھتے ۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More