ویانا(پاک تر ک نیوز)
ایک طویل عرصہ سے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جاری مذاکرات جو 2015 کے JCPOA کی بحالی اور ایران سے معاشی پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے ویانا میں منعقد ہورہے تھے انہیں روک دیا گیا ہے۔
ویانا مذاکرات جو ایران کی معاشی بحالی ، اس پر سے پابندیاں ہٹانے اور اسکے بدلے میں ایرانی جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں انکا ختم ہونا دنیا کے بہت سے ممالک بشمول امریکہ اور ایران کے ، دھچکے سے کم نہیں ۔
یہ تعطل ایران کے اہم اتحادی اور مذاکرات کے بنیادی فریق روس کی جانب سے ایک ایسے مطالبے کی وجہ سے آیا ہے جس کی توقع خود ایران بھی نہیں کررہا تھا۔ روس نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جوہری معاہدہ طے پانے کے بعد روس پر عائد موجودہ پابندیوں کا اطلاق اسکے ایران کے ساتھ لین دین پر نہیں ہوگا۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا کہ یہ تعطل بیرونی عوامل کی وجہ سے آیا باوجود اسکے کہ ایک حتمی متن بنیادی طور پردستخط کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا JCPOA فریقین اور امریکہ کے درمیان رابطہ موجود ہے۔
A pause in #ViennaTalks is needed, due to external factors.
A final text is essentially ready and on the table.
As coordinator, I will, with my team, continue to be in touch with all #JCPOA participants and the U.S. to overcome the current situation and to close the agreement.
— Josep Borrell Fontelles (@JosepBorrellF) March 11, 2022
اقوام متحدہ میں روس کے سفیر میخائل الیانوف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے روس پر تمام الزام ڈالنے کی کوشش کو مسترد کیا۔
اس حوالے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ٹویٹ کیا کہ بیرونی عوامل کو مذاکرات کی کامیابی پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا
Pause in #ViennaTalks could be a momentum for resolving any remaining issue and a final return.
Successful conclusion of talks will be the main focus of all.
No external factor will affect our joint will to go forward for a collective agreement. https://t.co/pAb0lzGjhd
— Saeed Khatibzadeh | سعید خطیبزاده (@SKhatibzadeh) March 11, 2022
انہی خیالات کا اظہا ر ایرانی وزیر خارجہ امیر عبدلہیان نے بھی کیا ہے۔
ویانا مذاکرات کا پس منظر :
مذاکرات کا موجودہ دور نومبر کے آخر میں شروع ہوا تھا جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، ایران اور روس شامل تھے، جبکہ امریکہ بالواسطہ طور پران مذاکرات میں حصہ لے رہا تھا۔
ان مذاکرات کا مقصد 2018میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کی دستبرداری کے فیصلے کو تبدیل کرکے اس JCPOAکا احیا کرنا ہے۔
روس کی جانب سے تازہ مطالبات کی وجہ سے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے کیوں کہ JCPOA کے نفاذ میں روس کا اہم کردار ہے ، جیساکہ ایران سے افزودہ یورینین کی کھیپ کو روس میں محفوظ کرنا۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ روس کی جانب سے یہ ناقابل عمل مطالبہ ایک چال ہے جس کا مقصد ایرانی تیل کی مارکیٹ میں ترسیل کی بحالی میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے ۔معاہدے کی صورت میں ایرانی تیل کی عالمی منڈیوں میں فروخت پر سے پابندی ہٹ جائے گی جس سے تیل کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔
لیکن روس تیل کی قیمتین بلند سطح پر رکھ کر مغرب کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
لیکن اس سے ایران کی معاشی بحالی پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ایران کے پاس روسی چال کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے۔