آج ہم شہروں میں تیز رفتار اور مصروف ترین زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تیزی میں ہم قدرتی مناظراور مظاہر فطرت کو یا تو فراموش کر چکے ہیں یا یہ ہمارے خیالات سے محو ہو چکے ہیں۔ دسمبر کی نیم دھند آلود صبح میں سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کی مایو کاؤنٹی کے گل باخ گاؤں پہنچا تو وہاں بھائی محمد عبداللہ باقر ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے۔ اس نوجوان نے اپنے گاؤں میں ایک زرعی کواپریٹو ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ آج نہ صرف عبداللہ باقر خوشحال ہیں بلکہ ان کے گاؤں کے دیگر لوگ بھی اس خوشحالی سے مستفید ہو رہے ہیں۔
گاؤں پہنچتے ہیں مرغ کی خوبصورت بانگ میرے کان میں پڑی، یہ آواز سنے شاید زمانے بیت گئے تھے۔ یہاں کی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو ہوا میں ٹہری ہوئی تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا شاید وقت تھم سا گیا ہے۔ میں آہستہ آہستہ گاؤں کی مرکزی سڑک پر آگے بڑھنے لگا۔ ایک قریبی کھیت جس میں سے لگتا ہے حال میں فصل کاٹی گئی تھی چڑیاں دانا دنکا چگنے میں مصروف تھیں۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ میں ایک خوبصورت سی موسیقیت موجود تھی۔ ان کی اڑنے آواز کی”پُھر” ایسی واضح سنائی دے رہی تھی کہ کیا کہیے۔ اسی دوران ایک گھر کی چھت پر دھوپ تاپنے میں مصروف کبوتروں کا غول گٹر گوں، گٹرگوں کی آوازیں نکال رہا تھا جیسے مہمانوں کا استقبال کررہا ہو۔ اس دوران محمد احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کی منڈیر پر ایک کوا کائیں کائیں کرکے مہمانوں کی آمد کا اعلان کررہاتھا۔
اتنی دیر میں نورین صاحبہ آگئیں اور انہوں نے کہا کہ جناب چلئیے اپنے ناظرین کو اس گاؤں کے خوبصورت مناظر دکھاتے ہیں۔ ہماری زندگی کتنی عجیب ہے ہم روزگار کی تلاش میں شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں گھومتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ مقامی سطح پر روزگار اور سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔ اس گاؤں میں اب ایسا نہیں تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کی مہم کے دوران مختلف علاقوں میں لوگوں کو مقامی وسائل کے مطابق روزگار کے حصول میں مدد فراہم کی گئی۔ گاؤں کی سیر کے دوران ہم محمد عبداللہ باقر کی چھوٹی سے کمپنی میں بھی گئے۔ یہ کمپنی یہاں ایک کولڈ سٹوریج چلاتی ہے۔ یہ کاروبار چین کے "کواپریٹو” ماڈل کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ اس ماڈل میں گاؤں کے لوگ اپنی اپنی صلاحتیں، مہارتیں، وسائل اور تجربات یکجا کرتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کا سرمایہ، ایک شخص کا تجربہ، ایک شخص کی زمین، ایک شخص کی خدمات یوں گاؤں کے پچاس ساٹھ گھرانے مل کر مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں اور بعد میں حاصل شدہ منافع باہم تقسیم کر لیا جاتا ہے۔
اس گاؤں میں اسی ماڈل کے تحت کولڈ اسٹوریج قائم کیا گیا ہے۔ اس کولڈ اسٹوریج کے پاس اپنے ٹرک اور چھوٹی گاڑیاں موجود ہیں جن کی مدد سے وہ محفوظ شدہ زرعی پراڈکٹس شہروں تک پہنچاتے ہیں۔ باقر جدید زرعی طریقوں، کاروبار، قانون اور دیگر امور میں مہارت حاصل کرکے گاؤں لوٹے تو انہوں نے یہاں کاروبار کا آغاز کیا،اس سے نہ صرف ان کی بلکہ گاؤں والوں کی زندگی بھی تبدیل ہوگئی۔ اس سے قبل گاؤں والے اپنی اپنی سبزی روزانہ کی بنیاد پر خود شہرلے کر جاتے تھے۔ روازنہ کے سفر اور سبزیوں کو محفوظ بنانے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کا منافع نہ ہونے کے برابر تھا۔ باقر نے گاؤں واپس آکر کولڈ اور وارم اسٹوریج قائم کیا۔ ان کے کولڈ سٹوریج میں آلو، پیاز، گاجر، شکر قندی، سبز مرچ اور بند گوبھی سمیت دیگر سبزیاں محفوظ تھیں۔ وارم اسٹوریج میں خشک میوہ جات، اخروٹ، بادام، کشمش، نمک، ٹماٹر کی پیسٹ اور سرکہ وغیرہ محفوظ کیا گیا تھا۔ ایک کولڈ سٹوریج سے شروع ہونے والا یہ کاروبار اب کئی کولڈ اسٹوریج چلا رہا ہے جو باقر کے رشتے داروں اور گاؤں کے دیگر گھروں میں قائم کئے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے موسم سرما کے سخت ترین دنوں کے لئے گاؤں اور قریبی قصبوں کے لئے خوراک محفوظ کر لی ہے۔ بند گوبھی سمیت دیگر کئی سبزیاں تو آئندہ برس مئی تک محفوظ کر لی گئیں ہیں۔
باقر زیادہ پیداوار کے حامل نئے بیج اور کاشت کے جدید طریقوں میں بھی مہارتیں سیکھ چکے ہیں جس سے ان کے گاؤں کی اوسط مجموعی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔حکومت کی جانب سے انہیں مسلسل مدد اور وسائل فراہم کئے جارہے ہیں جس سے یہ گاؤں جدت کی حامل نئی ترقی کا ایک نمونہ بن چکا ہے۔ محمد عبداللہ باقر کے مطابق ماضی میں وہ ایک لاپرواہ نوجوان تھے جن کا زیادہ تر وقت کھیل تماشوں میں گزرتا تھا۔ آج میں ایک بدلے ہوئے باقر سے مل رہا تھا جو سی ای او کی کرسی پر بیٹھا ایک دانشور دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے کہا وہ مستقبل میں اپنے گاؤں میں ایک فوڈ پراسیسنگ فیکٹری قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے گاؤں میں پیدا ہونے والی اجناس، مقامی مٹھائیوں اور دیگر اشیا کو چین بھر میں بھیج سکیں۔ ان کی آنکھوں میں موجود چمک اور ان کے لہجے کا اعتماد یہ بتا رہا تھا کہ وہ جلد اس منزل کو پالیں گے۔
تحریر: زبیر بشیر،چین