تحریر:سلمان احمد لالی
پاکستان بھر میں یہ تاثر عام ہو چکا ہےکہ حکومت کو تبدیل کرکے جس کثیر جماعتی حکومت کواقتدار کی مسند پر بٹھایا گیا ہے وہ پاکستان کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور اسکی تازہ مثال یہ بجٹ ہے جو اس تجربہ کار حکومت نے ایوان میں پیش کیا ہے۔
گزشتہ روز کئی ایسے اقدامات کا اعلان وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی جانب سے کیا گیا جو بجٹ کی پہلی تقریر میں نہ تھے۔ یوں آئی ایم ایف کے مطالبات کو بجٹ کا حصہ بنانے کیلئے جن اقدامات کا اعلان کیا گیا اس نے پاکستانیوں کے کانوں سے دھواں نکال دیا۔
13بڑی صنعتوں پر 10فیصد سپر ٹیکس جو پاکستان کی سفید پوش طبقے یعنی مڈل کلاس کو ملازمتیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں وہ معاشی سیکٹر بھی ہیں جو ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پہلے ہی بہت پریشان ہیں کہ انکی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا ہےاور منافع کی گنجائش کم ۔ یہ ہی وجہ ہےکہ حکومت کے خلاف گزشتہ روز اسٹاک مارکیٹ نے عدم اعتماد کا اظہار کیا جو بد قسمتی سے مارکیٹ کریش کرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ اسکے علاوہ ایک خوش آئند اقدام ہائی نیٹ ورتھ والے افراد پر ٹیکس عائد کرنا ضرور سامنے آیا۔ تاہم پیٹرولیم مصنوعات پر 50روپے فی لیٹر لیوی اور نوکری پیشہ افراد میں 12لاکھ سالانہ آمدن والے افراد کو جو ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی وہ واپس لے کر اسکی حد چھ لاکھ روپے سالانہ آمدن تک کردی گئی ہے۔
شہباز شریف صاحب نے گزشتہ روز یہ اعلان فرماتے ہوئے حبیب جالب کی روح کو پے پناہ اذیت سے دوچار کیا کہ انکے اشعار بھی پڑھے جن کا نہ موقع تھانہ محل ۔ انہوںنے انتہائی انقلابی انداز میں یہ اعلان فرمایا کہ غریبوں کا بوجھ امیروں پر منتقل کردیا گیا ہے اور انکی حکومت غریبوں کا احساس کرنے میں اپنے پیشرووں پر بازی لے گئی ہے۔ حتیٰ کہ کئی ماہرین معاشیات جو لبرل نظریات کے حامل ہیں وہ بھی اس فیصلے کی تائید کرتے نظر آئے تاہم کچھ تکلیف دہ اور پریشان کن تفصیلات ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کرنا ضروری ہیں۔ جن انڈسٹریز پر سپر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے ان میں سگریٹ اور مشروبات کی صنعتوں کو چھوڑ کے بیشتر سیکٹرز پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ سیکٹرز ہیں جنہوں نے عالمی وبا کے دوران پاکستان کی معیشت کو سہارا دیے رکھا اور گزشتہ دو برسوں کےد وران کچھ سیکٹرز میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ہوئی جس سے انڈسٹریل گروتھ میں اضافہ ہوا اور پاکستان کی بر آمدات بڑھیں۔
حکومت کی جانب سے ان ٹیکسوں کا جواز آئی ایم ایف کی اس شرط کو بناتی ہے کہ حکومت اپنا بجٹ خسارہ ختم کرے اور ٹیکس کولیکشن میں اضافہ کرے ۔لیکن کیا ان سیکٹرز اور افراد پر مزید ٹیکس کا بوجھ لادنا جائز ہے جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں ہیں اور ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں ؟ حالانکہ پاکستان میں ریٹیلرز اور دیگر شعبہ جان میں لاکھو ں افراد ٹیکس نا دہندہ ہیں اور نہ ہیں ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ ایسےمیں حکومت پر الزام عائد ہوتا ہے کہ ایک تو انہوںنے اپنی ووٹر بیس کو بچانے اور اسے خوش کرنے کیلئے یہ اقدامات کیے ہیں دوسرا کسی سازش کے تحت گروتھ والے سیکٹرز کی نمو کو روکنے کا بندوبست کردیا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنی پیداوار میں اضافہ کیے بغیر اور بر آمدات کو بڑھائے بغیر اس نیو لبرل نظام میں ترقی نہیں کر سکتا ۔تو حکومت نے ریونیو بڑھانے کیلئے دیگر اقدامات کرنے کے بجائے انہی سیکٹرز کو کیوں نشانہ بنایا جو پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ایسے میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا ایک ٹویٹ بھی آگیا جہاں انہوں نے وضاحت کی کہ 10فیصد سپر ٹیکس 13سیکٹرز پر لگایا گیا ہے جبکہ دیگر سیکٹرز بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں، انکو بھی چار فیصد تک سپر ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہ ٹویٹ سب سے قیامت بن کر ٹوٹا۔
یہ وہ اقدامات ہیں جو کسی طویل مدتی حکمت عملی سے عاری اور ملک کو ایک بار پھراس کنویں میں پھینکنے کے مترادف ہیں جہاں معیشت میں بڑھوتری کو یکلخت روک کر ملک کو پھر سے قرضوں پر انحصار پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن کا کارپوریٹ ٹیکس پچاس فیصد سے زائد ہے۔ لیکن دیگر ممالک میں زیادہ تر فلاحی ریاستیں ہیں جبکہ پاکستان میں فلاح کیلئے کیے گئے کئی اقدامات کو واپس لے کر دو ہزار روپے کی خیرات منہ پر ماری جارہی ہے۔
اب آتے ہیں ریٹیلرز کیلئے فکسڈ ٹیکس کے اعلان کی جانب ،پاکستان میں 90لاکھ پرچون دکانیں ہیں جن 30لاکھ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ ہے فکسڈ ٹیکس کی صورت میں ۔ یعنی ایک دکاندار ماہانہ 60ہزار منافع کماتا ہےاور اسکے مقابلے میں دوسرا دکاندار 7لاکھ منافع کما پاتا ہے تو دونوں کو دکان کے سائز کے مطابق ایک جتنا ہی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
اسی طرح کیسی بڑے ریٹیلر کی آمد ماہانہ 25لاکھ اور اتنے ہی سائز کی دکان کے حامل کسی دوسرے ریٹیلر کی آمدن اس سے زیادہ ہے تو بھی انہیں ایک جتنا ہی ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہ ہے کہ اس حکومت کے بقراطوں اور ارسطووں کی معاشی حکمت عملی جو اپنے تجربے کا ڈھول پیٹتے نہیں تھکتے تھے۔