ترکی روس یوکرین جنگ سے بڑا فائدہ اٹھا سکتا ہے:امریکی ایگزیکٹو

انقرہ(پاک ترک نیوز)
سینئر امریکی بزنس ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ ترکی یوکرین پر حملے کی وجہ سے روسی مارکیٹ چھوڑنے والی سینکڑوں امریکی کمپنیوں کو راغب کرسکتا ہے۔
امریکی چیمبر آف کامرس کے ایگزیکٹو نائب صدر اور بین الاقوامی امور کے سربراہ مائرون بریلینٹ نے کہااگر ترکی سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے تو وہ امریکی کمپنیوں کو اپنی منڈیوں کی جانب راغب کرسکتا ہے۔
یوکرین پر حملے کے بعد صرف امریکی کمپنیاں نہیں بلکہ جاپانی اور یورپی کمپنیا ں روس سے نکل رہی ہیں۔
انہوںنے اشارتا یہ بھی کہا کہ ترکی اور امریکہ کے رہنماوں کو کچھ ایسے مسائل پر بات کرنی چاہئے جو کچھ عرصے سے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ اس سے مراد انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان پائے جانے والے اختلافات بالخصوص ترکی کی جانب سے ایس 400کی خریداری کا معاملہ ہے۔
یوکرین کی جنگ سے قبل 1100امریکی کمپنیاں روس میں سرگرم تھیں۔ان میں سے کچھ نے کہا ہے کہ وہ اپنے آپریشنز ترکی میں منتقل کردیں گی۔
ترک حکام کی جانب سےکہا گیا کہ ترکی اور امریکہ کو ایک آزاد تجارتی معاہدے یا ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے چاہئیں ۔ اور ترکی کو سیکشن 232کی فہرست سے نکالنا چاہئےتاکہ ترکی سٹیل مصنوعات پر ٹیرف کو کم کیا جاسکے۔
ترکی نائب وزیر تجارت مصطفیٰ توزکو کا کہنا ہے کہ امریکہ گزشتہ سال جرمنی کے بعد ترکی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جس کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم 31.4ارب ڈالر ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ترکی کو اسٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات پر ڈیوٹی اٹھانے کی امریکہ سے توقع ہے۔
ترکی افراط زر میں اضافے کے علاوہ کئی معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ ترک لیرا کی قدرمیں اس وقت کمی آنے لگی جب ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے ترکی سمیت کئی ممالک کے مصنوعات پر ٹیرف عائد کیے۔ صدر رجب طیب اردوان نے حالیہ مہینوں میں مختلف ممالک کے ساتھ اپنے اختلافات کو حل کرکے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد ترکی کے آرمینیا، اسرائیل ، یو اے ای کے ساتھ تعلقات میں بہتری نظر آئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہےکہ ترکی کیجانب سے نئی خارجہ پالیسی کا مقصد ترکی کو درپیش معاشی مسائل نکالنا ہے۔ ایسے میں اردوان آئندہ برس انتخابات سے قبل ترکی کی معاشی ترقی اور افراط زر سے نمنٹے کیلئے کھلے دل و دماغ سے سب سے بات کیلئے تیار ہیں ۔ امریکہ کی جانب سے بھی اس رویے کو نوٹ کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں اردوان اور امریکی صدر بائیڈن کے درمیان ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو بھی کی گئی جس میں یوکرین جنگ سمیت کئی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More