سلمان احمد لالی۔
ترکی کی جانب سے شہریت اسکیم 2018میں شروع کی گئی جو بہت سے ممالک کے شہریوں میں بہت زیادہ مقبول رہی ۔ اسکیم کے آغاز سے کو بھی شخص ڈھائی لاکھ ڈالر کی پراپرٹی خرید کر یا سرمایہ کاری کرکے ترک پاسپورٹ حاصل کر سکتا تھا لیکن رواں برس کے اوائل میں جیسے ہی روس یوکرین جنگ شروع ہوئی تو ترکی نے اپنی پالیسی میں تبدلی لاتے ہوئے کم ازکم سرمایہ کاری کی شرط چار لاکھ ڈالر کردی جو یورپ کے کئی ممالک سے بھی زیادہ تھی۔ لیکن اسکے باوجود روسی شہریوں نے اس اسکیم کے تحت بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کی ۔
اس میں سب سے اہم کردار روس پر امریکی اور یورپی پابندیو ں نے ادا کیا۔ جیسے ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو بڑی تعداد میں روسی خاندانوں نے ترکی کا رخ کرلیا۔ تاکہ وہ نئے کاروبار کرسکیں اور معمول کی زندگی گزار سکیں۔
موجودہ حالات میں روسیوں کے ترکی میں شہریت کے حصول کے ایسے رجحان نے جنم لیا ہے جس سے ترکی میں مجموعی طور پر رئیل اسیٹ میں بوم آیا ہے۔اس سے قبل روسی بڑی تعداد میں ترکی میں سیاحت کیلئے آتے تھے اور انطالیہ اور الانیا روسیوں میں بہت معروف تھے۔ اور شہریت کیلئے جن غیر ملکیوں نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی تھی ان میں ایرانی، عراقی اور افغان سر فہرست تھے۔
لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ گزشتہ لہر کے دوران ایک اندازے کے مطابق ترکی میں پانچ ارب سے لے کر دس ارب ڈالر تک سرمایہ کاری آئی۔
لیکن اس وقت ساٹھ فیصد سرمایہ کار روسی نژاد ہیں۔قیمت میں اضافے کے باوجود بھی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔کیوں کہ یورپی ممالک میں اس کم قیمت میں شہریت مل سکنے کے باوجود ترکی روسیوں کیلئے ایک پر کشش مقام ہے۔ اسکی وجہ پابندیاں ہیں جو روسیوں کیلئے یورپ کاسفر اور مالیاتی لین دین ناممکن بناتی ہیں۔
ترکی نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد بہت ہی محتاط پالیسی اپنائی ہے۔ اسنے باسفورس کو روسی جنگی جہازوں کیلئے بند کردیا۔ روسی حملے کو غیر قانونی قرار دیا۔ لیکن اسکے باوجود ماسکو کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے اور پابندیاں عائد نہیں کیں۔ترکی ایک طرف نیٹو کا رکن ہونے کے باجود روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ترکی روس میں بر آمدات میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ترکی آنے والے روسیوں کی بڑی تعداد متمول پس منظر رکھتی ہے۔ وہ ترک شہریت اختیار کرکے اپنے اثاثے اور دولت وہاں منتقل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یورپ کے ساتھ آزادانہ طور پر کاروبار یا تجارت کر سکیں۔
امریکہ کو اس رجحان پر تشویش ضرور ہے لیکن ترک حکومت کا موقف ہے کہ ترکی آنے والے روسی اولیگارچ نہیں بلکہ عام شہری ہیں۔
اسی طرح کئی اشیا جنہیں روس بر آمد کرنے پر پابندی ہے وہ پہلے ترکی آتی ہیں اور اس کے بعد کنٹینربدلنے کے بعد روس کی جانب لے جائی جاتی ہیںجسکی وجہ سے ترکی ایک ٹرانزٹ ٹریڈ مقام بن گیا ہے۔ اور کئی روسی کمپنیاں بھی اپنے آپریشن ترکی منتقل کررہی ہیں۔ ان تمام امور سے ترکی کو بہت فائدہ ہوگااور ترک دفتر خارجہ اور صدر جس طرح روس اور مغرب کے ساتھ متوازن تعلق چلا رہے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہے۔ پاکستان جیسے ملک خارجہ پالیس اور ڈپلومیسی کے میدان میں ترکوں سے بہت کچھ سیکھ سکتےہیں۔