سلمان احمد لالی۔
میں طویل عرصے سے اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن مصروفیات کی وجہ سے مہلت نہ ملی۔ بھارت کے تزویراتی امور کے ماہر پراوین ساہنی جو اعلیٰ پائے کے عسکری مفکر بھی ہیں ، نے اپنی حالیہ کتاب
The Last War: How AI Will Shape India’s Final Showdown With China میں بھار ت کے بارے میں ایک بھیانک پیشین گوئی کی ہے۔ اسکے مطابق اگر 2024تک بھارت کی چین کے ساتھ جنگ ہوئی تو 10دن کے اندر ہی بھارت وہ جنگ ہار جائے گا۔ چین اس جنگ کے نتیجے میں کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ اروناچل پردیش اور لداخ پر قبضہ کرسکے گا۔
اور بھارت کے پاس اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایسا چین کی جانب سے جنگ کے نئے تصورات پر مسلسل کام کرنے کے بدولت ہو گا جس کے بارے میں آگے چل کر میں آپ کو بتاوں گا۔ لیکن سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پراوین ساہنی کے تجزیات کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے؟ ساہنی وہ پہلے تجزیہ کار نہیں جو اس طرح کی منظر کشی کر چکے ہیں اس سے پہلے 2020میں ایک امریکی تجزیہ کار نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ2035تک چین پاکستان کے ساتھ ملک کر جموں کشمیر اور لداخ کے محاذپر بھارت کو شکست دے سکتا ہے۔ لیکن پراوین ساہنی کے مطابق ایسا 2024میں ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ممکن ہے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت چین کے خلاف امریکہ کیلئے کس حد تک کارآمد ہے؟اور پاکستان کیلئے چین کے ساتھ ہر قیمت پر تعلقات کو استوار رکھنا اور قریبی تعاون کی کوشش کرنا کس قدر ضرور ی ہے۔
لیکن ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔ اسکی بنیا د چین کی نئی ملٹری صلاحیت اور ڈاکٹرائن ہے جس کا تعلق informationisationاور intelligentisedوار فئیر سے ہے۔ در حقیقت یہ دو اصلاحات چین کی جانب سے جاری کیے گئے وائٹ پیپرز میں پہلی باراستعمال کی گئی ہیں۔ تو پہلے سمجھتے ہیں کہ انکا مطلب کیا ہے؟
ان دونوں تصورات میں آرٹیفیشل ٹیکنالوجی، کوانٹم کمپیوٹنگ سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔ اور اس ڈاکٹرائن کے مطابق جنگ محض روایتی ڈومین یعنی ، زمین، ہوا اور سمندر میں ہی نہیں لڑی جائے گی بلکہ اب جنگ سائبر، الیکٹرو میگنیٹک اور خلا میں بھی لڑی جائے گی۔ انفارمیشنائزیشن کا مطلب تمام جنگی ڈومینز میں معلومات پر مکمل پر غلبے کا حصول ۔ یعنی دشمن کو کمانڈ، کنٹرول اور ہتھیاروں کو درستگی کے ساتھ استعمال کرنے کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا۔ اس میں الیکٹرو میگنیٹک اور سائبر کے علاوہ خلائی صلاحیتوں کا بہت ہی اہم کردار ہے۔
جب دشمن اپنے جدید ترین آلات سے درست معلومات ہی نہ حاصل کرسکے تو چین کو اس میدان میں بڑی کامیابی مل جائے گی۔ میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، 2019میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت جب پاکستان پر الزامات عائد کرکے بالاکوٹ میں اپنے طیاروں کے ذریعے پے لوڈ گرایا تو پاکستان نے strategic parity کے حصول کیلئے جوابی حملہ کیا جس کے دوران پاکستان کی جانب سے الیکٹرانک وارفئیر کی صلاحیت کا متاثر کن استعمال کیا گیا اور بھارت کے تمام کمیونیکیشن سسٹمز کو جام کردیا جس کے بعد بھارتی ریڈار اور پائلٹ بڑی حد تک اندھے ہوگئے ۔ اس اسٹینڈ آف سے بھارت کی پوری دنیا میں سبکی ہوئی ۔ گوکہ یہ ایک بہت ہی چھوٹی سطح پر پیش آنے والا عسکری واقعہ تھا اور پاکستان کے پاس موجود صلاحیتیں چین کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہیں ۔ جب ہم چین کی بات کرتے ہیں تو یہ صلاحیتیں کئی گنا زیادہ ہیں۔
اب آتے ہیں دوسرے اچھوتے تصور یعنی انٹیلی جنسائزڈ وار فئیر کی جانب جس میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس ، کوانٹم کمپیوٹنگ، انٹر نیٹ آف ملٹری تھنگز کے عسکری میدان میں استعمال کے ذریعے طویل فاصلے تک درست مار کرنے والے جدید ہتھیاروں، بغیر انسانوں کے چلنے والے ہتھیاروں اور روبوٹ فوجیوں کا استعمال ہے۔
ان دونوں تصورات کے تحت پلک جھپکنے کی رفتار کے ساتھ بھارت پر چین اگر حملہ آور ہوتا ہے تو یاد رکھیں کہ بھارت کے پاس اپنے دفاع میں کرنے کیلئے کچھ زیادہ نہیں بچتا۔
چین ان صلاحیتوں پر گزشتہ دس برس سے کام کر رہا ہے اور مزید کام جاری ہے، بہت سے تجزیہ کار اور دفاعی امور کے ماہرین کو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین اس تمام تصورات کے مطابق جنگ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق بیجنگ2049تک اس قابل ہو جائے گا کہ وہ ان تمام میدانوں میں مکمل کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا ۔ لیکن پراوین ساہنی کے مطابق ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔
لیکن کیا چین واقعی ایسا کرنا چاہے گا، یہ سوال عجیب سا لگتاہے بالخصوص ایسی صورتحال میں جب مشرقی لداخ میں 1000مربع کلومیٹر چین کے قبضے چلے گئے اور بھارت کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہے۔سٹریٹجک کلچر، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ، سول ملٹری فیوژن اور نئی ٹیکنالوجیز کے لحاظ سے بھارت چین سے بہت پیچھے ہے۔
اگر جنگ ہوتی ہے تو پی ایل اے سب سے پہلے سائبر سپیس، الیکٹرو میگنیٹک سپیس اور خلائی ڈومین پر حاوی ہو کر میدان جنگ پر مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرے گی۔اس دوران حملے کی رفتار، شدت اور نتائج پر جلد ہی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
چین کی ملٹری اسٹریٹجی میں پہلے حملہ کرکے دشمن کو مفلوج کرنا اور اپنی شرائط پر جنگ کے خاتمے کی بنیاد رکھنا شامل ہے۔
چین کی جانب سے اگر بھارت پر حملہ کیا جاتا ہے تو کئی اہم روایتی چیزوں کو نظر انداز کردیا جا ئے گا کیوں کہ سرپرائز چینی عسکری حکمت عملی کا بنیادی جزو ہے۔اب اگر رفتار کی بات کی جائے تو صلاحیتوں کے اعتبار سے چین اور بھارت مختلف رفتار پر جنگ لڑیں گے۔ چین روشنی کی رفتار زمین سے زمین تک مارکرنے والے مزائلوں کو استعمال کرکے گا جو ہزاروں کلومیٹر دور تک 20mach سے زیادہ کی رفتار سے مار کریں گے۔ایکmach 1235کلومیٹر فی گھنٹہ کے برابر ہےجو کہ روشنی کی رفتار ہے۔اسکے مقابلے میں روایتی بھارتی مزائل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 3.7mach ہے۔
آئی اے ایف کے فرنٹ لائن رافیل طیارے کی رفتار 2,450 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اور ہندوستانی فوج کے سپاہیوں کی اونچائی میں رفتار 5 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم ہوگی۔
بھارت کی صورت حال دیکھی جائے تو آج وہ اسی مقام پر کھڑا ہے جس پر وہ 1962پر کھڑا تھا۔ بھارتی ماہرین کے مطابق روایتی جنگ کے لحاظ سے بھارت چین سے 10برس جبکہ جدید ٹیکنالوجی کی ڈومین میں 15برس پیچھے ہے۔کیوں کہ عسکری اصلاحات کے تناظر میں دیکھا جائےتو سن2000سے بھارت میں جمود طاری ہے۔ حالیہ اقدامات انتہائی محدود اور زیادہ تر در آمدات پر مشتمل ہیں۔بھارت چین سے کتنا پیچھے ہے یہ بھی بھارتی اندازہ ہے لیکن میرے خیال میں بھارت کو چین کے ساتھ military parity کے حصول کیلئے مزید وقت درکار ہے جبکہ چین 2024میں ہی اس قابل ہو گا کہ وہ فیصلہ کن جنگ کرسکے۔
تمام تر دعووں کے باوجود بھارتی افواج کے ساتھ مشرقی لداخ میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف شرمناک ہے بلکہ حیران کن بھی ہے۔جبکہ چین کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے متعلق 2027اور 2035کے تمام اہداف حاصل کرلیے ہیں۔
بھارت بہت تیزی سے اپنے آپ کو چین سے لڑنے کے قابل بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ نئی دہلی میں موجود تزویراتی امور کے ماہرین اسے آخری جنگ کی تیاری کا نام دیتے ہیں جبکہ چین اسے مستقبل کیلئے جنگ کا نام دیتا ہے۔
بھارت کی حکمت عملی اب واضح ہے اور وہ ہے سفارتکاری کے ذریعے 10سے 15برس تک جنگ ٹالنا۔اس دوران بھارت اپنے بجٹ میں اضافےکے ساتھ ساتھ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے ایک واضح ٹائم لائن واضع کرنے میں لگا ہے۔بھارتی منصوبہ سازوں کااندازہ ہے کہ اگر جنگ کی صورت میں امریکہ ایشیا پیسفک میں چین کو روکنے میں کامیاب ہوبھی جائے تو ہمالہ کی چوٹیوں پر بھارت کے مقدر میں چین کے ہاتھوں شکست لکھی ہوئی ہے۔
اب آتےہیں پاکستان کی جانب، اگر بھارت آئندہ دہائی کے دوران چین کے خلاف اپنے عسکری اہداف کے حصول کی مکمل تیاری کرلی تو پاکستان عسکری لحاظ سے کہاں کھڑا ہوگا؟جبکہ بھارت پاکستان سے کئی گنا بڑی معاشی طاقت ہے۔ ایسے میں پاکستان کیلئے چین کے ساتھ اپنے مستقبل کو جوڑنا انتہائی ضروری ہے ، کیوں کہ بھارت کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کے نتیجہ میں پاکستان کے تحفظ اور دفاع کیلئے چین کے کوئی مدد نہیں دے گا۔ اور ہمیں بھی جلد ہی سوچنا ہو گا کہ بھارت کسی قدر تیزی سے اپنی عسکری اصلاحات کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پاکستان کو بھارت کے ساتھ مسابقت کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہوگی؟