سہیل شہریار
جنوبی ایشیا میں گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے پاکستان سمیت خطے کے بیشتر ممالک کو بجلی کی طلب اور پیداوار میں نمایاں فرق اور اسکے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت میں اس موسم گرما میں چھ سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر بجلی کی پیداوار اور طلب میں واضح فرق کی وجہ سے 6سے8گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ پی ٹی این کے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں اس غیر روائیتی اضافے کی بڑی وجہ گھروں میںگرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے دوپہر کے اوقات میں ائر کندیشنرز کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ وہاں ابھی تک لوگوں کی کثیر تعداد کورونا کی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد دفاتر اور فیکٹریاں دوبارہ کھلنے کے باوجود گھروں سے ہی کام کر رہی ہے۔
بجلی کی کمی کا ایک سبب بھارتی حکومت کے کوئلے کی درآمد پر پابندی لگا کر صرف ملک کے اندر پیدا ہونے والے کوئلے کے استعمال کو لازمی کرنا بھی ہے ۔جس کے نتیجے میں کئی بجلی گھر بند ہو گئے تھے۔ جبکہ بھارتی ریلوے کی جانب سے دیگر بجلی گھروں کو کوئلے کی درکار مقدار کی ترسیل میں ناکامی کی وجہ سے ان بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت 42فیصد تک کم ہو گئی ہے۔
دنیا کی تیسری سب سے بڑی پاور مارکیٹ میں دن کے وقت بجلی کی مسلسل طلب کا مطلب ہے کہ شمسی توانائی کی پیداوار کے چوٹی کے اوقات کےدوران بھی وہ بجلی کی طلب اور پیداوار کے فرق کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔جنوبی ایشیا میں ہیٹ ویو کی شدت کی وجہ سے خطے کے تمام ملکوں میں پیداوار اور ترسیل کے دونوں نظاموں کو یکساں مشکلات کا سامنا ہے۔
بھارت میں بجلی کا بحران خطے کے دیگر ممالک جیسے پاکستان اور بنگلہ دیش کے لیے ممکنہ چیلنجوں کو نمایاں کرتا ہے جن کی بجلی کی پیداواری صلاحیتیں بھی تھوڑی ہیں۔پاکستان کو بھی بجلی کی شدید بندش کا سامنا ہے جہاں کچھ دیہی علاقوں کو روزانہ 6سے8گھنٹے تک ہی بجلی ملتی ہے۔جبکہ بنگلہ دیش میں بھی صورتحال یکساں طور پر ابتری کا شکارہے۔جبکہ ہیٹ ویو کو موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ جس میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو سب سے زیادہ نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ کوئلے سمیت فوسل ذرائع سے بجلی کی پیداوار کو انتہائی مضر قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ بھارت میں اسکی مجموعی 4لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صالاحیت کا 75فیصد یعنی 3لاکھ میگا واٹ کوئلے سے بجلی بنانے والے بجلی گھروں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت دنیا میںگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بھی تیسرا بڑا ملک ہے۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ رواں سال اور اب آنے والا ہر سال جنوبی ایشیا میں گرمی کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم کرے گا ۔کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات اب ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ اور اس صورتحل کو واپس کرنے کے لئے اگر عالمی سطح پر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے اور جنگی بنیادوں پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو مکمل طور پر ختم یا انتہائی کم نہ کیا گیا تودنیا کے بیشتر حصے خصوصاً جنوبی ایشیاقحط سالی کا شکار ہو جائے گا۔