روس اور ایران نے مستقبل کی صف بندی شروع کردی

سلمان احمد لالی۔
روس اور ایران اس وقت وہ دو ممالک ہیں جو امریکہ کی سخت پابندیوں کا شکار ہیں۔ روس یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سےزیر عتاب ہے جبکہ ایران کے خلاف کئی دہائیوں سے پابندیاں عائد ہیں جن میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید اضافہ کیا۔ لیکن ان دونوں ممالک میں ایک بنیادی فرق یہ ہےکہ ایران اس وقت روس ، امریکہ ، چین اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے مالیاتی و معاشی پابندیوں سے چھٹکارے کیلئے مذاکرات کر رہا ہے جبکہ روس کے خلاف پابندیاں ختم ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا اور نہ ہی روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرنے کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔
ایران ، روس کے تعلقات:
ایران اور روس کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور کئی اہم عالمی امور پر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے بالخصوص شام کی بات کی جائے تو صدر بشار الاسد کی حکومت بچانے میں ماسکو اور تہران نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسکے علاوہ ہر عالمی فورم پر ایران اور روس نے ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر حمایت بھی کی ہے اور ایران ان ممالک میں شامل ہے جو روس کے ساتھ گہرا دفاعی تعاون رکھتے ہیں۔ ایرانی فوج میں زیادہ تر اسلحہ بشمول ایس تھری ہنڈر ڈ نامی طیارہ و مزائل شکن نظام روسی ساختہ ہی ہے۔

مستقبل کی تیاری:
روس نے دوہزار چودہ میں جب کریمیا پر حملہ کیا تو اسے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی دفع امریکی معاشی پابندیوں کا مزہ چکھنا پڑا۔ اسی لیے پیوٹن نے مستقبل میں ایسی پابندیوں اور انکے مضر اثرات سے بچنے کیلئے کئی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں سینٹرل بینک میں پڑے غیرملکی کرنسی کے اثاثہ جات کو ڈالر سے سونے اور دیگر غیر روایتی کرنسیوں میں تبدیل کیا جاتا رہا۔ امریکہ کے زیر اثر بین الاقوامی ترسیلات زر کے نظام سوفٹ کے بدلے ایک نیا نظام وضع کیا گیا جسے میر کا نام دیا گیا۔ اسکے علاوہ بھی کئی اقدامات شامل ہیں۔
دوسری طرف ایران کی بات کی جائے تو تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک سخت پابندیوں کا شکار رہا ہےا ور دیگر ممالک کے ساتھ انہی پابندیوں کی وجہ سے کاروبار، تعاون اور میگا پراجیکٹس نہیں کیے جاسکے۔ انہیں میگا پراجیکٹس میں ایک ایران پاکستان اور بھارت کا گیس پائپ لائن پراجیکٹ بھی ہے جو کئی برس سے تعطل کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ پابندیاں ہیں۔

حالیہ اقدامات اور مستقبل کی منصوبہ بندی:
گزشتہ روز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد بہت ہی اہم بیان دیا ہے جس سے مستقبل کی منصوبہ بندی واضح ہوجاتی ہے۔ لاوروف نےکہا ہے کہ روس اور ایران ایسے میکانزم بنانے پر کام کررہے ہیں جس سے وہ انہیں مغرب کے تمام ترک ہتکنڈوں سے بچ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کا موقع ملے گا۔ یعنی دونوں ممالک ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہتے ہیں جس سے مغربی پابندیاں وقت کے ساتھ ساتھ غیر موثر ہوجائیں اور ان ممالک کی خودمختاری پر بھی اثر نہ پڑے۔

لاوروف نے کہا کہ ہمارے مغربی دوست ، دنیا پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کی کوشش میں جان بوجھ کر اور مستقل طور پربین الاقوامی نظام کے ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں۔
انکے بیان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ماسکو اور تہران ایک دو طرفہ معاہدے پر کام کررہے ہیں جو تزویراتی اہمیت کا حامل ہو گا اور جو آنے والی دہائیوں میں روس اور ایران کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے بنیادی رہنما اصول مرتب کرے گا۔ اسی دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پابندیوں کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم رواں برس کی پہلی ششماہی میں چالیس فیصد سے بڑھ کر دو عشاریہ سات ار ب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے ۔ جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
انہوںنے یہ بھی کہا روس ایران کی سنگھائی تعاون تنظیم میں بطور مستقل رکن کے شمولیت کی حمایت کرتا ہے۔

ترسیلات زر کے نظام پر پیشرف:
لاوروف نے اس موقع پر بتایا کہ ماسکو اور تہران روس کے میر اور ایران کے شیتاب نامی ترسیلات زر کے نظام کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان مالی لین دین کو آسان بنایا جاسکے۔انہوںنے کہا کہ مرکزی بینکوں کی سطح پر ٹھوس مذاکرات جاری ہیں اور جولائی میں اعلیٰ سطحی میٹنگ میں ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا گیا جس پر چلتے ہوئے جلد دونوں دونظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہو سکیں گے۔

اہم خفیہ پیغام:
روس نے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے بھی ایران کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ روس اس معاملے پر اپنا موقف ایران کے موقف کے مطابق بنائے گا۔
اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ امیر عبدللہیان نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے ایک یورپی ملک کے سربراہ کا خط لاوروف کے حوالے کیا۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ یہ خط یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جانب سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو دیا گیا کہ وہ اسے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن تک پہنچا دیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس خط میں امن و آشتی کے حصول،یوکرین اور روس دشمنی کے خاتمے کے بارے میں تجاویز ہیں۔
ایران جوہری معاہدے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امیر عبدللہیان نے کہا کہ تہران کومزید ضمانتوں کی ضرورت ہہے کہ معاہدہ دوبارہ منسوخ نہیں کیا جائے گا۔اگر موجودہ متن کو تقویت دی جاسکےتو معاہدے پر پہنچنا زیادہ دور نہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی پر زور دیا کہ وہ سیاسی بیانات اور تجزیے دینے سے گریز کرے ۔
میر اور شیتاب کو منسلک کرنے پر ایرانی وزیر خارجہ نے امید ظاہرکی کہ مستقبل قریب میں جدید ترین تکنیکی اقدامات یے جائیںگے اور دونوں ممالک کے لوگ اور کاروباری افراد اس موقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

دنیا تیسرے بلاک کی جانب بڑھ رہی ہے:
جیسے جیسے امریکہ اور مغربی ممالک دیگر عالمی طاقتوں جیسے اور روس اور چین کے خلاف صف آرا ہورہی ہیں اور کئی ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے چین کو عالمی طاقت بننے اور روس کو اسکے عزائم میں شکست دی جاسکے۔ ایسے میں جو سب سے موثر اور خطر ناک ہتھیار سامنے آیا ہے وہ پابندیاں ہیں۔ امریکہ کی عالمی مالیاتی نظام پر مضبوط گرفت کی وجہ سے کسی بھی فرد ، ادارے یا ملک پر معاشی و مالیاتی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ اس سے قبل پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جن پر محدود پابندیاں عائد کی گئیں۔ لیکن وینزویلا، ایران اور شمالی کوریا ان پابندیوں سے سخت متاثر ہوئے۔ یہ پہلی دفع ہے کہ روس جیسی عالمی طاقت کو پابندیوں کا شکار بنایا گیا ۔ ایسے میں روس جیسے ملک سے توقع رکھنی چاہیے کہ وہ اس نظام کو نقب لگانے کی کوشش کرے گا اور یقین کیجئے ان کوششوں کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ امریکہ کی جانب سے مالیاتی پابندیون کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے دنیا بھر میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اور بہت سے مغربی اتحادی ممالک بھی روس کی جانب دیکھ رہے ہیں جس نے تاریخ کی بد ترین اور سخت ترین پابندیوں کا سامنا کامیابی سے کیا۔ روبل کی قدر میں استحکام لانے میں کامیاب ہوا۔ یوکرین جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اصل جنگ مرکزی بینکوں کے بورڈ رومز میں ہورہی ہے۔ لیکن ابھی یہ جنگ خفیہ ہےاور ہزار پردوں پیچھے چھپی ہے۔ اور یہ بات بعید ازقیاس نہیں کہ جنگ کھل کر لڑی جانے لگے۔ اس جنگ میں مغرب کامیاب ہوتا ہے یا مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقتیں ، یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن سب سے اہم بات یہ ہےکہ اس سے امریکی قیادت میں موجودہ عالمی مالیاتی نظام شدید متاثر ہوگا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More