.سلمان احمد لالی
شمیمہ بیگم ایک برطانوی نژاد لڑکی ، پندرہ برس کی عمر میں شام میں لےجائی جاتی ہے جہاں وہ داعش نامی دہشتگرد تنظیم کے چنگل میں پھنس جاتی ہے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد شمیمہ بیگم کی برطانوی شہریت منسوخ کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ملک واپس نہیں لوٹ سکتی اور اس وقت وہ شام میں ہی ایک کیمپ میں کسمپرسی میں زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن شمیمہ کو شام میں کس نے پہنچایا۔
نئی معلومات کے مطابق کینیڈین انٹیلی جنس سے منسلک ایک ایجنٹ نے شمیمہ کو اپنی شناخت چھپانے میں مدد دی اور اسے شام پہنچایا۔کینیڈین ایجنٹ ایک ڈبل ایجنٹ تھا جو داعش اور کنیڈا کی خفیہ ایجنسی ، دونوں کیلئے کام کرتا تھا۔ اور کینیڈین حکام کو اس سارے معاملے کا مبینہ طور علم تھا۔
یہ راز برطانیہ میں شائع ہونے والی نئی کتاب، سیکرٹ ہسٹری آف فائیو آئیز میں کھولا گیا ہے۔ رپورٹس کےمطابق شمیمہ کو پندرہ برس کی عمر میں داعش میں داخل کیا گیا اور اس مقصد کیلئے انکی معاونت کنیڈین خفیہ ایجنٹ نے کی۔اس کتاب کے مصنف ہیں رچرڈ کیرباج جو سنڈے ٹائمز کے ساتھ بطور سیکیورٹی رپورٹر منسلک رہےہیں۔
کینڈا کی خفیہ ایجنسی نے محمد الراشد کو اس وقت بھرتی کیا جب اس نے اردن میں کنیڈا کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، قیاس کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آقاوں کی ایما پر درجنوں برطانویوں کو داعش میں شامل ہونے کیلئے شام پہنچایا۔
الراشد نے شمیمہ بیگم اور اسکے دو ساتھیوں کی پاسپورٹ کی تصاویر اسی وقت ہی اپنے آقا سی ایس آئی ایس
کو بھیج دی تھیں۔باوجود اس بات کے، کہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس سروس نے اس حوالے معلومات اور تعاون کی اپیل کی تھی کہ کسی کو شمیمہ اور اسکے ساتھیوں کے بارے میں علم ہو تو بتایا جائے، کینیڈین حکام نے جان بوجھ کر خاموشی برقرار رکھی۔
ترکی کا کردار:
جب اوٹاوا حکام نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی تھی تو ترکی نے الراشد کو اپنے ملک سے گرفتارکیا۔ اسکی پاس سے برطانوی اسکول بس کے ٹکٹ سمیت کئی نوجوانوں کی سفری دستاویزات ملیں۔ ترکی نے فورا برطانیہ کو خفیہ طور پر اسکی اطلاع دے دی۔دوہزار پندرہ میں ترکی نے برطانیہ کےساتھ خاموشی سے یہ معاملہ اٹھایا بھی۔ترک اخبارات میں بھی اس حوالے سے خبریں شائع ہوئیں۔ لیکن مغربی حکومتوں اور میڈیا نے حیران کن اور شرمناک کن طور پر خاموشی اختیار کی۔ اور میڈیا نے حکومت کے ساتھ مل کر شمیمہ کے خلاف انتہائی گھٹیہ مہم چلائی۔
کتاب میں یہ بھی کہا گیا کہ کینیڈا نے برطانوی حکام کو قائل کرلیا کہ وہ اسکے اس سارے معاملے کردار پر پردہ ڈال دیں۔ ترکی میں حراست کے دوران ہی ایجنٹ نے انکشاف کیا کہ الراشد نے تمام معلومات کینیڈین خفیہ ایجنسی کو فراہم کردی تھیںکہ اسنے شمیمہ بیگم سمیت درجنوں بچوں، بچیوں کو شام پہنچایا ہے۔بی بی سی نےبعد میں جب کینیڈین انٹیلی جنس حکام اور برطانوی حکومت سے اس بارے میں سوال کیا تو دونوں جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔
کیا یہ بات مزید حیران کن نہیں کہ کینیڈین خفیہ ایجنسی کا کارندہ برطانیہ میں انسانی سمگلنگ میں ملوث تھااور داعش کو نفری فراہم کر رہا تھا وہ بھی اپنے ہینڈلرز کو مطلع کرکے۔کیا کینیڈا داعش میں برطانوی شہریوں کو بھرتی کروانے میں ملوث تھا۔یا پھر انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کو بچوں کی زندگیوں پر ترجیح دی گئی ۔
اس وقت دنیا کے تمام اخبارات اور نیوز ویب سائٹس پر یہ خبر چھائی ہوئی ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے لیکن جسٹن ٹروڈو ، کینیڈا کے ہینڈ سم وزیر اعظم ابھی بھی سی ایس آئی ایس کا دفاع کرنے کیلئے سامنے آگئے ہیں۔
انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے اس وقت سوال اٹھا رہے ہیں کہ کم سن بچی شمیمہ اور انکے خاندان کے ساتھ خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا نے کیا سلوک کیا۔یہ سارا معاملہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی زندگیاں کسی ڈسپوزیبل چیز کی طرح کی کم قدر و قیمت کی حامل ہیں۔
کیا کنیڈا داعش کی مدد کر رہا تھا؟
مغربی خفیہ ایجنسیوں کا دفاع کرنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ سارا آپریشن داعش کے بارےمیں معلومات اکٹھی کرنے کیلئے کیا گیا، جی ہاں اسکول میں پڑھتی بچیوں کو ورغلا کر شام بھیجا گیا۔ کیا آپ کی سمجھ میں بات آئی ؟
بے وطن شمیمہ:
کسی رپورٹر نے ایک دن شمیمہ ایک کیمپ میں ڈھونڈ نکالا، وہ حاملہ تھی لیکن برطانیہ واپس نہیں آسکتی تھی کیوں کہ برطانوی وزیر داخلہ پاکستانی نژاد ساجد جاوید نے اسے شہریت نے محروم کردیا تھا۔تب سے شمیمہ برطانیہ کی حکومت کے خلاف ایک قانونی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔کتاب کے مطابق برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس کے پاس الراشد کے شمیمہ کو شام بھیجنےکے معاملے پر معلومات ہیں۔ اور یہ محکمہ وزارت داخلہ یعنی اس وقت کے وزیر داخلہ ساجد جاوید کے انڈر کام کرتا تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ ساجد جاوید کو بھی اس معاملے میں کینڈا کی خفیہ ایجنسی کے کردار کا علم تھا؟اگر تھا تو پھر شمیمہ کی شہریت کیوں ختم کی گئی؟
شہریت کیس پر اثرات:
ان انکشافات کا سپریم کورٹ میں جاری شمیمہ شہریت کیس پر کافی اثر پڑے گا ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ وزارت داخلہ کے قبیح اور شرمناک کردار پر بھی بات ہو گی جس نے ابھی تک شمیمہ کے خلاف شدید قانونی جنگ کی ہے۔امید ہے کہ برطانوی عدالتیں اس بات کو اتنی آسانی سے ہضم نہیں کر سکیں گی کہ ان سے وزارت داخلہ نے اتنی اہم بات کیوں چھپائی۔
شمیمہ کا خاندان اور انکے وکلا کا دیرینہ موقف ہے کہ انہیں داعش میں شمولیت کیلئے تیار کیا گیا ہے بعد میں انہیں اسمگل کیا گیا ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ برطانوی میڈیا نے ان کی عوام میں ریپوٹیشن تباہ کرنے اور انکے خلاف با قاعدہ مہم چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔