ریاض (پاک ترک نیوز)
امریکی صدر بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ کو دنیا بھر کے صحافیوں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین نے بغور دیکھا اور اس سے کچھ نتائج اخذ کیے۔
پہلا نتیجہ یہ اخذکیا گیا کہ امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دیرینہ اتحادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ واشنگٹن کی چین کے خلاف مشرق بعید میں بڑھتی ہوئی توجہ کے باوجود مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادی اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔یاد رہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران خلیجی ریاستوں میں یہ خوف پایا جاتا ہےکہ امریکہ شاید مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی اب وہ اہمیت نہ دے جو پہلے دیتا رہا۔ اسی لیے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر ریاستوں نے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کیں۔
اس اہم مرحلے میں جب بائیڈن دنیا بھر سے روس کے خلاف حمایت اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں ، نے عرب ریاستوں کو یقین دلانےکی کوشش کی کہ امریکہ اور ان کے درمیان کچھ نہیں بدلا۔
دوسری مشاہدہ یہ سامنے آیا کہ بائیڈن نے اسرائیل کو خوش کرنے کی تمام کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بیانات اور مذاکرات کے دوران اسرائیل کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور اس دوران خود کو صیہونی بھی قرار دیا۔انہوںنے ماضی کی طرح ایک بار پھر دہرایا کہ صیہونی ہونے کیلئے یہودی ہونا ضروری نہیں۔
اسرائیل کےد ورے کے دوران بائیڈن نے حکام پر فلسطینیوںکے حوالے سے کوئی مطالبہ نہ کیا اور نہ ہی مقبوضہ فلسطین میں شہریوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات کے حوالے سے کوئی باز پرس کی۔
دورے کا تیسرا نتیجہ امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ طور پر ایران کے خلاف اعلامیہ تھاجس میں دونوں ممالک نے اس عزم کا اظہار کیاکہ وہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔اسکے علاوہ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنے کیلئے طاقت کے استعمال کی آپشن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
چوتھے نمبر پر جس بات پر سب سے زیادہ بحث دیکھنے میں آئی وہ محمد بن سلمان اور بائیڈن کی ملاقات تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب محسوس ہوا کہ محمد بن سلمان اور بائیڈن کے درمیان تمام رنجشیں ختم ہو گئیں ہیں۔
حالانکہ کچھ عرصہ قبل بائیڈن کی جانب سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی کوششوں کے باوجود محمد بن سلمان نے کال لینے سے معذرت کر لی تھی۔واشنگٹن پوسٹ نے ان ملاقات کو شرمناک قرار دیا۔تاہم بہت سے مبصرین نے بائیڈن اور ایم بی ایس ملاقات کا دفاع بھی کیا۔
سب سے اہم اور آخری نکتہ جو اس دورے کے بنیادی مقاصد میں سے تھا، اس پر کوئی ٹھوس پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔وہ ہے تیل کی پیداوار بڑھانے کا معاملہ۔ امریکہ ایک عرصے سے مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک بالخصوص سعودی عرب پر زور دیتا آیا ہے کہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے تاکہ عالمی منڈی میں قیمتوں کو متواز ن رکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں بلندشرح افراط زر اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کو عوام کی جانب سے سخت دباو کاسامنا ہے۔
گو کہ اس حوالے سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا تاہم بائیڈن نے امید ظاہر کی کہ دو ہفتوں تک شاید قیمتوں میں مزید کمی دیکھنے کو ملے۔