مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصٰی کے امام شیخ اکرمہ صابری نے ترکی کی فلسطین پالیسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کو بھی اسی پالیسی پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
شیخ اکرمہ صابری جو ان دنوں ترکی کے دورے پر ہیں انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات صدیوں پر محیط ہیں۔ ترکی کی فلسطین پالیسی عرب دنیا میں بھائی چارے کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی کی فلسطین کے لئے جو پالیسی ہے ایک ایسی ہی پالیسی اور سخت موقف کا فلسطینی عوام عرصے سے منتظر تھی۔
ترکوں کی مسجد اقصیٰ اور یروشلم سے محبت لازوال ہے اور فلسطینی اس محبت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شیخ اکرمہ صابری نے کہا کہ اسرائیلی حکام جب چاہتے ہیں مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ بند کر دیتے ہیں۔ خود انہیں بھی کئی بار مسجد میں داخلے سے روک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو اسرائیل کے اس غیر منصفانہ ظلم کے خلاف اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسجد میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی اس لئے لگائی جاتی ہے کہ فلسطینی عوام اس ظلم پر خاموش ہو جائے اور مسجد میں صرف اسرائیلی حکام اور سماجی کارکنوں کو داخلے کی اجازت ہو۔ اس کے علاوہ اسرائیل مسجد میں انتہاپسند یہودیوں کو جگہ دینا چاہتا ہے جو فلسطینی مسلمان کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ پر صرف مسلمانوں کا حق ہے اور یہودیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ کئی ممالک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے پر مذاکرات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد صرف مسلمانوں کی ہے اس پر کیا مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
شیخ اکرمہ صابری نے کہا کہ انتہاپسند یہودی یروشلم سے متعلق بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو نہ صرف فلسطین بلکہ کئی عرب ممالک میں مقبول ہو رہا ہے۔
انہوں نے مسجد اقصیٰ اور یروشلم پر ایک مشترکہ اسلامی بیانئے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مسلم عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ شیخ اکرمہ نے کہا کہ ایک اچھی پیش رفت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں مسجد اقصیٰ سے محبت بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مسلم میڈیا پر زور دیا کہ وہ مسجد اقصیٰ سے متعلق اسلامی بیانئے کو مختلف زبانوں میں عام کریں تاکہ آنے والی نئی نسل بھی اس کی اہمیت کو سمجھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا میں مسلمانوں سے مسجد اقصیٰ سے متعلق دریافت کریں تو ان کو اس کے متعلق معلوم ہے لیکن جب بیت المقدس اور یروشلم کی تاریخ سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
سابقہ پوسٹ
اگلی پوسٹ