ظہیر احمد
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تبدیلی کے بعد سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی تبدیلی آگئی ۔ ماردھاڑ اور ہنگامہ آرائی سے بھرپور اجلاس کے دوران حمزہ شہباز 197 ووٹ لے پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ بن گئے جبکہ تحریک انصاف اورمسلم لیگ ق نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیاجس کے باعث مدمقابل پرویزالٰہی کو کوئی ووٹ نہیں پڑا ۔
باپ وزیراعظم ، بیٹا وزیراعلیٰ پنجاب ، نیا ریکارڈ بن گیا
اپنے والد شہبازشریف کے وزیراعظم بننے کے بعد بیٹے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں ۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ بیک وقت باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ بنا ۔ اس سے پہلے شہبازشریف اور حمزہ شہباز بیک وقت قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کا منفرد ریکارڈ بھی رکھتے ہیں ۔ شریف خاندان کے پا س پہلے ہی یہ ریکارڈ بھی ہے کہ دو بھائی نوازشریف اور شہبازشریف پنجاب کی وزیراعلیٰ رہے اور پھر وزیراعظم بھی بنے ۔ نوازشریف کے پاس دو بار وزیراعلیٰ اور سب سے زیادہ تین بار وزیراعظم بننے کا ریکارڈ ہے اور شہبازشریف کے پاس سب سے زیادہ تین بار وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز ہے ۔
پنجاب اسمبلی میں اجلاس سے پہلے کیا ہوا ؟
16 اپریل کی صبح لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے اجلاس بلایا تو اس سے پہلے ہی یہ واضح ہوچکا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار حمزہ شہباز کو حکومتی اتحاد کے امیدوار پرویزالٰہی پر عددی برتری حاصل ہے ۔
حمزہ شہباز مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے ساتھ تین بسوں میں پنجاب اسمبلی پہنچے اور حکومتی اتحاد کے ارکان بھی ایک بس میں آئے ۔ ساڑھے گیارہ بجے اجلاس شروع ہونا تھا لیکن حکومتی ارکان کے نہ پہنچنے کی وجہ سے اجلاس تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا ۔انہیں بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتی رہیں ۔ اس دوران ایوان میں تحریک انصاف کی خواتین ارکان کافی تعداد میں رنگ برنگے لوٹے اچھالتی رہیں ۔ ایک رکن نے اسپیکر ڈائس پر جا کر بھی لوٹا رکھ دیا جسے سٹاف نے ہٹادیا۔ یہ صورتحال بتارہی تھی کہ ہنگامہ خیز ہوگا۔
پنجاب اسمبلی میں مولاجٹ فلم پوری چلی
پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ۔ سیکیورٹی سٹاف کے ساتھ جیسے ہی ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری ایوان میں داخل ہوئے ۔ تحریک انصاف کے ارکان نے حملہ کردیا۔ اسپیکر ڈائس کی کرسی کھینچ کر دوست محمد مزاری کو نیچے گرادیا اور سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر کو لاتیں اور گھونسے مارتے رہے ۔ دوست محمد مزاری کے دھکم پیل کے دوران بال بھی نوچے گئے اور سر پر لوٹے مارے گئے ۔ سیکیورٹی عملے اور اپوزیشن ارکان بمشکل ڈپٹی اسپیکر کو ایوان سے باہر لے گئے جہاں سے وہ اپنے دفتر میں جابیٹھے ۔اس دوران آئی جی پنجاب پولیس کمانڈوز کے ساتھ اسمبلی پہنچ گئے ۔ پولیس اہلکاروں کو اسمبلی میں دیکھ کر تحریک انصاف والوں نے احتجاج کیا اورپھر وزارت اعلیٰ کے امیدوار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے احتجاج پر اہلکاروں کو اسمبلی لابی سے باہر بھیج دیا گیا۔
پہلی بار ہوا پولیس پنجاب اسمبلی میں داخل ہوئی
چودھری پرویز الٰہی نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکاروں کے اسمبلی میں آنے سے حالات بگڑے پہلے پولیس اہلکار نے ایک رکن اسمبلی کو تھپڑ مارا جس پر مشتعل ہوکر ڈپٹی اسپیکر کو زدوکوب کیا گیا۔ حکومتی ارکان نے آئی جی پنجاب کے خلاف تحریک استحقا ق بھی جمع کرادی ۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو ایوان میں طلب کرکے ایک ماہ کی سزا دی جائے گی ۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے خط لکھ دیا
ایوان میں خود پر حملے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے سوشل میڈیا پر آکر بتایا کہ وہ جانتے ہیں کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کے ساتھ ان پر حملہ کیا گیا ۔یہ لوگ ملک میں مارشل لا لگوانا چاہتے ہیں ۔ لیکن وہ جان لیں ۔ اجلاس آج ہی ہوگا اور وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی آج ہی ہوگا۔ اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے آئی جی پنجاب کو خط لکھا ، جس میں عدالتی حکم کے مطابق اجلاس کرانے کے لیے پولیس فورس بھجوانے کو کہا گیا ۔
ڈپٹی اسپیکر کے بلانے پر اینٹی رائیٹ فورس کے اہلکار پنجاب اسمبلی پہنچ گئے ۔ بلٹ پروف جیکٹس پہنے پولیس اہلکار بھی پرانی بلڈنگ کے راستے پنجاب اسمبلی میں داخل ہوگئے ۔ اینٹی رائیٹ فورس نے ایوان میں داخل ہوتے ہی پی ٹی آئی مردوخواتین ارکان کو دھکے مار کر اسپیکر ڈائس سے ہٹادیا ۔ مزاحمت کرنے پر تین حکومتی ایم پی ایز کو بھی حراست میں لے لیا ۔ اس موقع پر ایوان میں شدید نعرے بازی ، ہنگامہ آرائی اور ہاتھا پائی بھی ہوتی رہی ۔
چودھری پرویز الٰہی بھی حملے میں زخمی ہوگئے
پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران متحدہ اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز اپنے چیمبر میں رہے جبکہ حکومتی اتحاد کے امیدوار پرویزالٰہی ایوان میں موجود رہے ۔ ایک موقع پر وہ انگوٹھے سے ویل ڈن کا نشان بناتے بھی نظر آئے اور ایک اور ویڈیو میں انہیں کچھ افراد کو ایوان میں داخل کراتے ہوئے بھی دیکھا گیا ۔
ایوان میں پولیس فورس کے آپریشن کے دوران پچھلے بنچوں پر اچانک شورشرابہ شروع ہوا اور پرویزالٰہی لیگی ارکان اسمبلی کے نرغے میں آکر زخمی ہوگئے ۔ ان کے پریس سیکریٹری اقبال چودھری کو بھی زخم آئے ۔ سیکیورٹی کا عملہ اپنے نرغے میں لے کر پرویز الٰہی کو لے کر ایوان سے چلاگیاجہاں باہر انہیں طبی امداد ی گئی ۔
کچھ دیر بعد پرویز الٰہی دائیں بازو پر پٹی باندھے اور آکسیجن ماسک لگائے نظر آئے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ سلمان رفیق اور رانا مشہود نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور یہ سب حمزہ شہباز کی ایما پر کیا گیا ہے ۔ پرویز الٰہی کے مطابق ان کا بازو ٹوٹ گیا ہے اور سینے پر بھی چوٹیں آئی ہیں ۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی ایوان میں واپسی ہوگئی
پولیس فورس کے اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مہمانوں کی گیلری میں آکر کھڑے ہوگئے اور مائیکروف (چھوٹے لاؤڈ اسپیکر ) کے ذریعے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کردیا ۔ اس پر شورشرابے کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے ارکان نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔ حکومتی ارکان کے جانے کے بعد ایوان میں کشیدگی کا ماحول نہ رہا ۔ ڈپٹی اسپیکر نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے گنتی کا عمل شروع کرایا ۔ جس میں حمزہ شہبازکو 197 ووٹ پڑے اور وہ پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ بن گئے ۔ بائیکاٹ کی وجہ سے پرویزالٰہی کو کوئی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا۔
ماردھاڑ کے بعد وزیراعلیٰ بننے پر حمزہ شہباز نے کیا کہا ؟
قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد حمزہ شہباز نے اپنے پہلے خطاب میں کہا ۔ آج جمہوریت کی فتح ہوئی ہے اور ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ جو ہوا اس پر ایوان کی کمیٹی بنانی چاہیئے ۔ ان شاءاللہ ہماری عوامی حکومت ہوگی اور ہم عوام اور حکومت کے درمیان خلا کو ختم کریں گے ۔
پرویز الٰہی کی شریف خاندان کوہاتھ اٹھا کر بدعا ئیں
پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بنے تو اس دوران پرویزالٰہی کی زخمی بازو کو اٹھا کر شریف خاندان کو بدعا دینے کی ویڈیو سامنے آئی ۔ جس میں وہ التجا کرتے ہیں کہ میں کہاں جاؤں، میرے لیے کوئی عدالت نہیں ہے، میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، پرویزالٰہی نے یہ بھی کہا کہ وہ شریف خاندان کو کبھی معاف نہیں کریں گے ۔
وزیراعظم شہبازشریف کا پرویزالٰہی سے شکوہ
پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب سے ایک روز پہلے وزیراعظم ہاؤس میں اینکر پرسنز سے ملاقات میں شہبازشریف نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن نے پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ دے دی تھی ۔ دونوں طرف سے مبارک باد اور مٹھائیاں بھی کھلادی گئی تھیں لیکن پھر پرویزالٰہی اچانک عمران خان سے ملاقات کے بعد مکر گئے اور اس صورتحال میں پارٹی اور اتحادیوں نے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کردیا۔ اگر پرویزالٰہی متحدہ اپوزیشن سے کیے وعدے پر قائم رہتے تو پنجاب اسمبلی کی وزارت اعلیٰ انہیں پلیٹ میں رکھ کر دے دی تھی ۔ تب حمزہ شہبازنہیں پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بنتے ۔