سلمان احمد
پاکستان کو حال ہی میں آئی ایم ایف سے قرض کی ایک قسط موصول ہوئی جس پر بہت سے حلقوں کی جانب سے اطمینان کا اظہار کیا گیا اور امید ظاہر کی کہ جس بحران کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا وہ اب ٹل گیا ہے۔
لیکن یہ بحران کتنے عرصے کیلئے ٹلا ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے ایک عام شہری کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا کیوں پڑھتا ہے۔اگر بہت ہی سادہ الفا ظ میں بیان کیا جائے تو کسی بھی ملک کو ڈالرز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑھتا ہے۔
ڈالرز کی کمی کا مطلب ہے کہ اس ملک کو بیرون ملک سے آنے والا سرمایہ یا آمدنی اسکے بیرونی خرچ سے کم ہے۔ کسی ملک کی بیرونی آمدنی کے تین ہی بنیادی ذرائع ہیں ، ایک بر آمدات، دوسرا ترسیلات زر یعنی ریمیٹنسز اور تیسرا بیرونی براہراست سرمایہ کاری ۔جبکہ بیرونی اخراجات میں امپورٹس کا سب سے بڑا حصہ ہےجبکہ دیگر اخراجات میں بیرونی قرضہ جات اور اس پر سود کی رقم کی ادائیگی وغیر ہ شامل ہے۔ ڈالرز کی آمد اور اخراج میں فرق کو کرنٹ اکاونٹ خسارہ کہا جاتا ہے اور اسی خسارے کو ختم کرنے کیلئے مختلف ممالک کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑھتا ہے۔
ظاہر ہے اس خسارے کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک کی بیرونی آمدن کو بڑھایا جائےاور اخراجات کو کم کیا جائے۔ لیکن یہ سادہ سی بات ہی سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ سب سے پہلے اگر پاکستان کے بیرونی اخراجات پر نظر ڈالی جائے تو امپورٹس میں سب سے بڑا حصہ انرجی کا ہے یعنی تیل، پیٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی۔ کسی بھی ملک کی معیشت کو چلانے کیلئے انرجی کی کلیدی اہمیت ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب معیشت کے حجم میں اضافہ ہورہا ہو تو توانائی کا استعمال بھی بڑھتا ہے۔ایسے میں اس پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ ڈالرز میں ادا کیے جاتے ہیں ، اسکے بعد خوراک یعنی اہم اجناس ، خوردنی تیل کے علاوہ صنعتوں کیلئے مشینری اور خام مال وغیرہ شامل ہیں۔
اکثر اوقات پاکستان کو اندرون ملک پیداوار میں کمی صورت میں کپاس امپورٹ کرنا پڑھتی ہے اور گزشتہ چند برس کے دوران گندم بھی در آمد کرنا پڑی جو کہ کسی زرعی ملک کیلئے ایک المیے سے کم نہیں۔ اور اگر کپاس کی پیداوار کم ہوتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری جو کہ ٹیکسٹائل ہے، کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے جس سے اسے بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقتی نرخوں پر اپنی اشیا بیچنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اسکے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر پاکستان کی در آمدی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اگر بیرونی آمدنی کو دیکھا جائے تو گزشتہ برس پاکستان کی بر آمدات میں بھی اضافہ ہوا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا لیکن پانچ عشاریہ آٹھ فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو کے ساتھ در آمدات میں بھی اضافہ ہوا۔ در آمدات بالخصوص تیل اور خوراک کے عالمی نرخو ں پر بین الاقوامی حالات بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے توانائی اور خوراک کے نرخ بڑھے جس سے ان اشیا کے در آمدنی ملکوں پر اضافی بوجھ پڑا۔
پاکستان کی بر آمدات کو بڑھانے کیلئے متعدد فعہ پالیسیوں کا اعلان کیاگیا لیکن ان پالیسیوں کے مربوط نہ ہونے کی وجہ سے انکے متوقع نتائج بر آمدنہ ہو سکے۔ حکومت کی جانب سے کئی مرتبہ کئی سیکٹرز کو ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دی گئی لیکن ان سیکٹرز میں شامل انڈسٹریو ں کو اپنی مصنوعات کو اسمبل کرنے کیلئے پارٹس در آمد ہی کرنا پڑھے۔ اس حوالے سے آٹو موبیل سیکٹر کی مثال قابل ذکر ہے۔ ابھی حال ہی میں موبائل فون کی مینوفیکچرنگ شروع ہوئی لیکن اسے بنانے کیلئے زیادہ تر کمپونینٹ در آمد کردہ ہی ہیں۔
تیسرا مسئلہ پاکستان کے بعض قوانین میں سقم کا موجود ہونا ہے۔ پاکستان کے ریگولیشنز اور بلند شرح ٹیکس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کو نہ صرف مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ امریکی سرمایہ کاروں اور حکومت نے بارہا پاکستان کے ساتھ کاپی رائٹس اور دیگر انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس کو بہتر بنانے اور اس پر عمل در آمد یقینی بنانے پر بارہا زور دیا ہے جس سے کئی سرمایہ کار پاکستان میں اپنا پیسہ لگانے سے گریزاں رہے ہیں۔
اگر بھارت کو دیکھا جائے تو اس کی بر آمدات میں سب سے بڑا حصہ سروسز کا ہے بالخصوص آئی ٹی سے متعلق خدمات ۔ اسکی وجہ وہاں کا بلند معیار تعلیم ہے۔ وہاں پر کئی ایسی آئی ٹی کمپنیاں موجود ہیں جن کا حجم ایک ار ب ڈالر سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اسکے مقابلے پاکستان کو دیکھا جائے تو یہاں ہمیں ایسی کوئی آئی ٹی کمپنی نظر نہیں آتی جس کی ویلیویشن ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہو۔ جس کی بڑی وجہ معیار تعلیم کاکم ہونا ہے۔
میرے خیال میں ان تمام مسائل کی نشاندہی کے بعداپنی دانست انکاحل پیش کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کو کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ کے مسئلے سے چھٹکارہ پانے کیلئے ایک طویل مدتی اور مربوط و جامع سیٹ آف پالیسیز اختیار کرنا پڑھیں گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس پر عملد ر آمد میں حکومتوں کی تبدیلی اور سیاسی حالات اثر انداز نہ ہوجس کے کیلئے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور تمام ریاستی اداروں بل الخصوص اسٹیبلشمنٹ کے درمیان consensusکا ہونا ضروری ہے
پاکستان کو فی الفور تمام اندرونی و بیرونی اسٹیک ہولڈز سےمشورے کے ساتھ اپنے قوانین اور قواعد کو سرمایہ کاروں کی ضروریات سے ہم آہنگ بنانے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ملک کی طویل مدتی اکنامک پلاننگ کو از سر نو تشکیل دینا ہوگا اور پی ایس ڈی پی سمیت تمام شعبوں کو اس سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ پاکستان میںمعیار تعلیم کو بہتر بنانے اور کم خرچ آئی ٹی کورسز ہنگامی بنیادوں پر متعارف کروانے ہوں گے۔ آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو مزید آسان بنانا اور مراعات دینی ہوں گی۔ ڈگریوں پر زور دینے بجائے ہنر کے فروغ پر کام کرنا ہوگا۔پاکستان کی موجودہ انڈسٹری کو مسابقتی بنانے اور اسکی پراڈکٹوٹی کو بڑھانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی زرعی پیداوارکو بڑھانے کیلئے پہلے سے موجود زرعی تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ان میں بہتری لانے کے عمل کا آغاز کیا جائے ۔ اشیا کی قیمتوں کے نرخ حکومت کے بجائے مارکیٹ کو مختص کرنے دیے جانے چاہییں۔ ملک کے ترقیاتی بجٹ میں ان منصوبوں کو نہ شامل کیا جائے تو نئے معاشی منصوبے سے ہم آہنگ نہ ہو۔ ان تمام شعبوں میں بہتر منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے علاوہ ملک کے در آمدی اشیا پر انحصار کو کم کرنے پر خصوصی توجہ درکار ہے۔ بالخصوص اربن پلاننگ کے پہلو پر کام کرنا بہت ضروری ہے جس سے ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں کمی ممکن ہو سکے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بڑھتی ہوئی اربنائزیشن پر بھی کام کرنا ہوگا اس کےلیے سب سے ہم پہلو ملک کے دیہی علاقوں میں صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس حوالے سے ایک مستقل اور بہترین لوکل گونمنٹ سسٹم کا قیام ناگزیر ہے۔