تحریر :سلمان احمد
ایسے وقت میں جب پاکستانی عوام کی توجہ پوری طرح سے اندرونی سیاسی صورتحال پر مرکوز تھی، ایک خبر نے دفاع اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے قارئین کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
اس خبر کے مطابق ترکی نے امریکی اعتراضات کی وجہ سے پاکستان کو جدید گن شپ ہیلی کاپٹرز کی فراہمی روکنے کا اعلان کردیاچونکہ یہ ہیلی کاپٹرز امریکہ اور ترکی کی شراکت سے تیار کیے جاتے ہیں اور ان میں امریکی انجن استعمال ہوتے ہیں اس لیے دونوں ممالک کے مابین معاہدوں کے مطابق امریکا اس ڈیل کو روکنے کا اختیار رکھتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان اور ترکی کے تعلقات میں تیزی سے گرم جوشی آئی ہے اور2018 میں ہیلی کاپٹرز کی خریداری کا معاہدہ دونوں ممالک میں دفاعی تعلقات کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کی بطور ہتھیاروں کے فروخت کنندہ کے طور پر حیثیت کو بھی مستحکم کرتا ہے۔
ماہرین اس سارے معاملے کو ایک تکنیکی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور اس کا تعلق ترکی ا ور روس کے درمیان ہتھیاروں کی خریدوفروخت سے قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کو امریکا اور دیگر نیٹو ممبران کی جانب سے روس سے جدید ائیر ڈیفنس سسٹم ایس 400 کی خریداری پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزشتہ برس امریکہ نے ترکی پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔
یہ خبر اس وقت آئی جب نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی فارن پالیسی کی سمت کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں اور ہر کوئی یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ انتظامیہ سے کس قدر مختلف ہوگی۔
پاک ترک معاہدہ آرمی ایوی ایشن کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا تاکہ پرانے بیل ایچ ون ایف ہیلی کاپٹرز کو ٹی-129 جیسے جدید ہیلی کاپٹرز سے تبدیل کیا جاسکے اور پاکستان نے ان ہیلی کاپٹرکو 2017 میں باقاعدہ آزمائش کے بعد خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ٹی-129 ہیلی کاپٹرز کی اس ڈیل کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زائد تھی، اسی وجہ ماہرین اسے ایک بڑی ڈیل قرار دیتے رہے ہیں۔یہ ڈیل ایک عرصے سے تعطل کا شکار تھی اور اس تعطل کو ختم کرنے کیلئے ترکی نے واشنگٹن کی ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ امریکی اعتراضات کو دور کیا جاسکےلیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
ترک صدر کے ترجمان کی جانب سے باضابطہ اعلان کے بعد پاکستان کے پاس متبادل کے طور پر چینی ساختہ جدید گن شپ ہیلی کاپٹرز خریدنے کی آپشن موجود ہے اور امریکاکی جانب سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی میں رکاوٹوں کی ماضی میں بھی مثالیں موجود ہیں۔ذرائع ابلاغ پر دفاعی ماہرین تواتر سے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ امریکی اقدامات سے پاکستان کو نقصان نہیں ہوا کیوں کہ چینی ٹیکنالوجی اس وقت مغربی ٹیکنالوجی کی ہم پلہ ہوچکی ہےلیکن اس کے کچھ دیگر پہلو بھی ہیں جو توجہ طلب ہیں۔
باوجود اس کے کہ ترکی نے موجودہ صدر طیب اردگان کی قیادت میں معاشی طور پر بہت تیزی سے ترقی کی ہے اور خطے میں ایک اہم بین الاقوامی پلیئر کے طور پر ابھرا ہے، لیکن اس ڈویلپمنٹ نے ترکی اور پاکستان جیسی ابھرتی اقوام کی بہت بڑی کمزوری کو آشکار کیا ہے۔ انقرہ کا دہائیوں سے مغرب بالخصوص امریکا پر انحصار اس کی خودمختاری محدود کرنے کا باعث بنا ہے۔ ترکی کو اسی وجہ سے روس سے ایس400 کی خریداری میں مشکلات پیش آئیں۔ جدید ترکی دنیا کے سٹیج پراہم کردار ادا کرنے کو بیتاب ہے اور پاک ترک دفاعی معاہدہ اس تمنا کا عکاس تھا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت محض زرمبادلہ کمانے کی غرض سے نہیں کی جاتی بلکہ جس ملک کو ہتھیار فراہم کیے جاتے ہیں اس کے ساتھ تعلقات میں مزید وسعت حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اگر روس اور امریکا کی مثال ہی لی جائے تو ان دونوں ممالک کی دفاعی صنعت نے دیگر ممالک میں انکے اثرورسوخ اور تعلقات میں وسعت عطاکرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی ہتھیاروں کی فروخت کے ذریعے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ کما سکتا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ طویل مدتی تزویراتی، معاشی اور معاشرتی تعلقات کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ گو کہ اس ڈیل کے ختم ہونے سے دونوں ممالک کے تعلقات پر فرق نہیں پڑے گا ۔
اس خبر کا ایک اور اہم پہلو پاکستان پر امریکا کا عدم اعتماد ہےجو بھی تکنیکی وجہ اس معاہدہ کی تکمیل میں رکاوٹ قرار دی گئی ہو، اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو جدید ہتھیاروں اور سازوسامان کی فراہمی میں واشنگٹن کے رویے نے پاکستان کو دفاعی ضروریات پوری کرنے کیلئے چین کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ سن1980 میں امریکا کی جانب سے فراہم کردہ کوبرا ہیلی کاپٹرز کی مرمت کیلئے دس برس بعد پرزہ جاب کی فراہمی سے انکار نے پاکستان کیلئے ان ہیلی کاپٹرز کو آپریشنل رکھنا مشکل بنا دیا تھا۔اسی طرح ایف 16 طیاروں کی فراہمی میں تعطل سے پاکستان ایک پریشان کن صورتحال سے دوچار رہا حتیٰ کہ دوسری افغان جنگ کے دوران انکی فراہمی ممکن ہو سکی۔
گو کہ امریکا کو اوپر بیان کردہ وجوہات کی بنا پر مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کو اپنی کمزوریوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ترکی کو معاشی طور پر امریکا اور یورپ پر انحصار کم کرتے ہوئے انٹیلی جنس ٹیکنالوجیز میں انویسٹ کرنا ہوگا اور خارجہ تعلقات میں تندوتیز بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے سفارتی ٹولز کو استعمال میں لا کر دیگر ممالک سے تعلقات میں بہتری کی کوشش کرنا ہوگی۔ ترکی جغرافیائی طور پر یورپ اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے جو اسے خاصی اہمیت عطا کرتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور یورپ میں فرانس جیسے ممالک سے تعلقات میں بہتری ترکی کے معاشی مستقبل کیلئے خاطرخواہ فوائد پہنچا سکتی ہے لیکن اس کیلئے اسے اپنی خارجہ پالیسی میں کئی بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی، بالخصوص شام اور لیبیا میں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں عدم اعتماد کی بہت سی وجوہات ہیں، بنیادی وجہ دونوں ممالک کے مفادات میں فرق ہے۔ دونوں افغان جنگوں میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی رہا ہے اور پاکستان کے تعاون سے اہل مغرب روس کو سرد جنگ میں شکست دینے میں کامیاب ہوسکے۔ سرد جنگ کے عروج سے لے کر دیوار برلن کے منہدم ہونے تک پاک امریکا تعلقات میں بہت سے اتارچڑھاؤ آتے رہے اور سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد پاکستان کو جس طرح سے اکیلا چھوڑ دیا گیا ۔اس نے یہاں کے پالیسی سازوں کے خیالات میں انقلابی تبدیلی کی بنیاد ڈالی۔ نہ صرف پاکستان کو افغان جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل سے اکیلے ہی نبرد آزما ہونا پڑا بلکہ افغانستان میں نوے کی دہائی میں پیدا ہونےوالی صورتحال نے پاکستانی معاشرے کو بھی گرفت میں لینا شروع کردیا جس کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
دوسری افغان جنگ جسے عرف عام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا جاتا ہے،اس جنگ میں پاکستان نے امریکا کے اہم اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے معاونت کی لیکن اس مرتبہ پاکستان کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکا پر مکمل اعتماد سے گریز کیا گیا جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں واضح دراڑ پیدا ہوگئی۔
اسکے ساتھ ہی ساتھ چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ کے آغاز کے بعد واشنگٹن نے چین کے خلاف انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ اتحاد کے تحت بھارت سے تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی اپنا لی ہے جس سے عالمی سطح پر پاکستان ایک اہم ملک کی حمایت سے محروم ہوجائے گا۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان نے مغرب سے افغان امن عمل میں مثبت کردار کرنے کی صورت میں تعاون کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی جاری ہے۔ پاکستان کو یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششوں میں اضافہ کرنا ہوگا جو پاکستان کی معیشت کیلئے اہم منڈی ہے۔ ترکی کی طرح پاکستان کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے حوالےسے خودکفالت کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے جن میں چین اور ترکی جیسے ممالک کا تعاون بہت اہم ہوسکتا ہے۔
موجودہ دور میں پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کو معیشت کی ترقی کواپنی فارن پالیسی کا کارنر سٹون بنانا ہوگا۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان اس معاملے میں پیچھے رہتا آیا ہے۔ موجودہ سیاسی و عسکری قیادت نے معیشت کے استحکام کو نیشنل سیکیورٹی کی ضمانت تو تسلیم کرلیا ہے لیکن اس حوالےسے کوئی واضح لائحہ عمل ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔
لکھاری ایک بین الاقوامی نیوز چینل سے منسلک ہے اور صحافت کے پیشے سے گزشتہ ایک دہائی سے وابستہ ہے۔