تحریر:سلمان احمد لالی
یہ سوال سوشل میڈیا پر گزشتہ رات سے کچھ احباب تواتر سے دہرا رہے ہیںکہ عمران ریاض خان صحافی نہیں بلکہ یو ٹیوبر ہے یا پاکستان تحریک انصاف کا کارکن ہے۔ یہ بات کہنے والے افراد میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں عمران خان کے دور میں مشکلات ، صعوبتیں اور ریاستی جبر سہنا پڑا۔ انکی ٹویٹس پڑھ کر یہ احساس ہو ا جیسا انہیں عمران ریاض خان کی گرفتاری کی بہت خوشی ہے اور وہ اس نظریے سے ان خیالات کی ترویج فرما رہے ہیں کہ کہیں بطور صحافی عمران ریاض خان کے حق میں زیادہ آوازیں نہ اٹھنے لگیں۔ صحافت پر انہی احباب کی اجارہ داری رہے۔
یہ صورتحال دیکھ کر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سلسلہ کبھی نہیں تھمے گا۔ صحافیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا۔ پھر کسی حامد میر اور ابصار عالم کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ آئندہ بھی کسی مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اغوا کیا جاتا رہے گا۔ پھر سے کسی ایاز امیر جیسے بزرگ صحافی کو زدو کوب کیا جاتا رہے گا۔ آئندہ بھی ریاستی ادارے عامر میر کو گرفتاری کے نام پر اغوا کر تے رہیں گے۔ پھر کسی رضوان رضی کی کلائیوں پر ہتھکڑیاں سجا کر انکی تصاویر جاری کی جاتی رہیں گی۔ کیوں کہ یہ ہی سب افراد ،انکا مزاق اڑھانے والے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہے۔ وہ عمران ریاض خان جو اس وقت پس زنداں ، دروغے اور سنتریوں کے رحم و کرم پر ہے ،کبھی ان تمام افراد پر ظلم و ستم کا دفاع کرتا تھا۔ کبھی وہ اپنی شعلہ بیانی میں نور مقدم جیسی مظلوم ہستی کو بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ کبھی وہ حامد میر جیسے اساتذہ کو بیرونی ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ کبھی اسد طور پر ہونے والے تشدد کو لڑکی کے بھائیوں کی جانب سے پٹائی کی بات کرتا تھا۔کبھی ارناب گوسوامی بن کر اپنے پروگرام میں مدعو مہمان ، پی پی پی کی رہنما پلوشہ خان کو بات تک نہ کرنے دیتا۔ پھر قدرت نے آج اسے بھی اسی چکی میں پسنے کیلئے ڈال دیاجس میں وہ باقی صحافیوں کو پیستے ہوئے ایک لمحے کیلئے بھی سوچنا گوارا نہیں کرتا تھا۔مکافات عمل ہوگیا۔ اسکے کرموں نے اسے بھی آلیا اور وہ بھی ہاتھوں پر ہتھکڑیوں کے کنگن سجائے تصویر بنوا چکا ہے۔ پیغام واضح ہے ، خبردار جو ہم پر انگلی اٹھائی یا سوال کیا۔ تم مردود حرم کی اوقات ہی کیا ہے۔ یہ ہی پیغام رضوان رضی کی تصویر کے ذریعے بھی دیا گیا تھا۔
لیکن یہ سلسلہ کیوں نہیں تھمے گا؟ کیوں کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ عمران ریاض خان اس سے کوئی سبق سیکھے گا۔ کیا اس سے پہلے والوں نے سیکھا؟
مسئلہ میری برادری کا یہ ہے کہ وہ تقسیم ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ کسی نہ کسی جماعت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں یا ایجنسیوں کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں۔ ہم خود گروہی اختلافات کا شکار ہیں۔ اسلیے ہم میں وہ اخلاقی جرات نہیں ہے کہ ہم میں سے کوئی بڑا اور مقبول آدمی کسی مخالفت نظریے کے حامل صحافی پر مظالم کی مذمت کر سکے۔ کوئی عمران ریاض خان جیسا شخص، حامد میر، ابصار عالم، اسد طور، عامر میر اور مطیع اللہ جان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مذمت نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی یہ احباب ایمانداری سے عمران ریا ض خان کیلئے آواز اٹھائیں گے۔
ان معتوب لوگوں میں اسد طور نے تو عمران ریاض خان کو پی ٹی آئی کا رکن ہی قرار دے دیا۔ اور کچھ نے کہا کہ وہ صحافی ہی نہیں ۔ کیوں کہ اسنے رپورٹنگ نہیں کی۔ مجھے یقین ہے کہ بی بی سی کے وضع کردہ اصولوں اور امریکی پریس انسٹی ٹیوٹ کی تعریف کے مطابق عمران ریاض خان ایک صحافی ہے۔ پاکستان میں اخباروں کے گھٹے ہوئے ماحول سے نکل کر بہت سے لوگ جب براڈکاسٹ میڈیا میں آئے تو وہ اپنے تعصبات بھی اپنے ساتھ لائے۔ ہمارے بعض اساتذہ کے مطابق جس نے زندگی میں رپورٹر کے طور پر کام نہیں کیا ،وہ صحافی نہیں ہے۔ نہیں جناب یہ گزشتہ صدی کی غلط فہمی ہے، اس سے نکل آئیے۔ ایسے دور میں جب کوئی شہری مفاد عامہ میں کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کرتا ہے تو اسے citizen journalismکہا جاتا ہے وہاں آ پ عمران ریاض خان کو اس بنا کر صحافی نہیں ماننا چاہتے حالانکہ وہ ایک طویل عرصے سے مین اسٹریم میڈیا پر حالات حاضرہ کے پروگرام کی میزبانی کرتے رہے۔ کیا طلعت حسین صاحب کے کریئیر کا آغاز سویرے سویرے کی میزبانی سے نہیں ہوا تھا۔ اگر آپ لوگوں کے اس speriority complexکی ماری ہوئی تعریف پر ہی چلیں تو دہائیوں نیوز رومز میں ڈیسک پر بیٹھے افراد بھی صحافی تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ پھر ایک گروپ میں کسی بزرجمہر نے کہا کہ اسکے پاس تو جرنلزم کی ڈگری ہی نہیں۔ خدارا گزشتہ صدی کے طرز فکر سے نکل آئیں اور یہ لائسنس بانٹنا بند کریں جس کا آپ کو اختیار ہی نہیں۔
میں نے ایسے ایم فل کے انٹرنی بھی بھگتائے ہیں جنہیں صحافت کی الف ، ب تک نہیں آتی تھی ۔ انہیں آن جاب ہی کام سیکھنا پڑا۔ یہ تو ہمارامعیار تعلیم ہے۔ دنیا بھر میں صلاحیت اور قابلیت کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے ناکہ ڈگریوں کو۔
اب آتے ہیں کہ کیا عمران خان کسی سیاسی جماعت کی حمایت کی وجہ سے درجہ صحافت سے نیچے گر گیا ہے؟میرا خیال ہے کہ نہیں۔ اگر نجم سیٹھی کسی ایک جماعت کی حمایت کرنے ، اسی جماعت سے عہدے لینے، کے بعد بھی صحافی رہتا ہے۔ اگر طلعت حسین صاحب ایک جماعت کی ذاتی تعصب کی بنا پر مخالفت کرکے بھی صحافی رہتےہیں۔ اگر عاصمہ شیرازی انتہائی جانبداری کا مظاہرہ فرما کر بھی صحافی ہی ہیں۔ اگر فہد حسین صاحب حکومت میں شامل ہونے کے بعد بھی صحافی ہیں تو عمران ریاض خان کیسے صحافی نہیں ہے۔ اگر ماضی کے کئی بڑے نام بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی اعلانیہ حمایت کرنے پر بھی صحافی رہے اور جمیعت کی کوکھ سے دائیں بازو کے نظریات کے حامل صحافیوں کی کھیپ ایک طویل عرصے تک ایک خاص نظریے کی حمایت کے بعد بھی صحافی رہے، اور نظامی خاندان کے ن لیگ سے تعلقات سے کوئی واقف نہیں ۔
میرا یا کسی کا کام یہ لائسنس بانٹ کر monoplyقائم کرنا نہیں۔
ہاں عمران ریاض خان سمیت کسی بھی صحافی کی صحافت پر تنقید کا حق سب کو ہے۔ کسی کے لکھے کالم میں انکے خیالات پر سوال اٹھانا سب کا حق ہے۔ کسی خبر کی جانبداری یا غیر جانبداری پر بحث ایک صحت مند عمل ہے۔ لیکن کیا ہم مولویوں کی طرح فتوے بانٹنے لگیں۔ کیا اب مذہبی طبقات کی طرح اجماع کےنظریے کا غلط استعمال کرتے ہوئے دھڑے بندی کریں۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ ہر دور میں اہل صحافت کو ہر صورت اپنے گریبان میں جھانکتے رہنا چاہیے۔ اور برائے مہربانی سینئر صحافی بھی اس تعصب سے نکل آئیں کہ جو رپورٹر نہیں ہے وہ صحافی نہیں تصور ہوگا۔ Grow up
اگلی پوسٹ