تحریر مسعود احمد خان
تازہ ترین خبر ہے کہ ہندوستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے مغربی اتحادیوں کے مطالبات کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے روس کے ساتھ تیل کی تجارت جاری رکھے گا اور اسکی ادائیگیو ں کیلئے ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں کے استعمال پر غورکیا جارہا ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق خام تیل اور دیگر اشیاکو رعایت پر خریدنے کی روسی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں اس خواہش کا اظہار کیاگیا ہے کہ بھارت خود کو روس سے دور رکھے ۔لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے دفاعی سازو سامان کیلئے ماسکوپر انحصار کی وجہ سے واشنگٹن نئی دہلی کے مسائل کو سمجھتا ہے۔
بھارت کے حالیہ دنوں میں رویے سے امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ بطور سٹریٹجک پارٹنر اور کواڈ الائنس کے ممبر کے نئی دہلی کتنا قابل اعتبار ہے۔ بھارت کی جانب سے ابھی تک یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی گئی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنرل اسمبلی میں مذمتی قراردادوں پر بھی ووٹ دینے سے بھی اجتناب کیاگیا ۔
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ چین کا ڈراوا دے کر بھارت مغرب سے تمام رعایتیں حاصل کر رہا ہے اور اسے ایس 400خریدنے پر بھی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔لیکن جیسے بھارتی دفاعی تجزیہ کارپراوین ساہنی اکثر کہا کرتے ہیں کہ بھارت اور چین کا عسکری اور تزویراتی لحاظ سے موازنہ بنتا ہی نہیں ہے۔ اگر کبھی چین کے خلاف بھارت کی کمٹمنٹ کو آزمانے کا وقت آیا تو کچھ بعیدنہیں کہ بھارت وہاں بھی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرے ۔ایسے میں امریکہ اور دیگر کواڈ ممبرز کیا کریں گے؟
بھارت جو اپنی ضروریات کا 80فیصد تیل در آمد کرتا ہےاس میں روسی تیل کا حصہ بہت قلیل ہے۔
لیکن اتنے بڑھے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھارت نے رواں برس زیادہ تیل درآمد کرنے کا ارادہ کیا ہے۔اور بھارتی حکام کے مطابق روس تیل اوردیگر اشیا کو بھارتی رعایت پر فروخت کیلئے پیش کر رہا ہے ایسے میں بنیا اور کیا سوچے گا۔
بھارتی حکام نے مزید کہا کہ اس طرح کی تجارت کے لیے سب سے پہلے ہمیں ضروری اقدامات اٹھانے ہیں جبکہ روس کی جانب سے اگر نقل و حمل، انشورنس کور شامل ہو گا تو ہندوستان روس کی یہ پیشکش قبول کر لے گا ۔ایک اہلکار کے مطابق، تیل کے علاوہ، ہندوستان روس اور اس کے اتحادی بیلاروس سے بھی سستی کھاد خریدنا چاہ رہا ہے، ہندوستانی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اچانک روس کو دوسرے سپلائرز کے ساتھ تبدیل نہیں کرسکتے، خاص طور پر دفاعی شعبے میں۔اگر دیکھا جائے توہندوستان کا اپنے فوجی ہارڈویئر کے لیے روس پر انحصار اب بھی 60 فیصد سے زیادہ ہے۔امریکی حکام نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ اگر روس بھارت کو S-400میزائل سسٹم بھیجے گا تو کیا بھارت پر پابندیاں لگ سکتی ہیں ، میرا خیال ہے کہ امریکہ بہادر کبھی بھارت پر ایسے حالات میں پابندیاں نہیں لگاے گا اور اس کی ایک وجہ چین ہے . اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک پر اس طرح کی پابندیاں لگانا امریکہ کے لے بھی اتنا آسان نہیں کیونکہ بھارت ہی ایک واحد ملک ہے جو چین کے خلاف امریکہ کے کہنے پر کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے ، یہ اور بات ہے کہ اس کا خمیازہ وادی گلوان سے کچھ مختلف نہیں ہونے والا .ایلی رتنر، امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع برائے ہنداوربحرالکاہل سلامتی امور، نے گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس کی سماعت میں بتایا کہ ہندوستان اپنے دفاعی سپلائرز بڑھا رہا ہے اور اس حوالے سے اور بھی ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان کی روس کے ساتھ ایک
طویل تاریخی تعلقات ہیں۔ وہ جو ہتھیار خریدتے ہیں ان میں سے زیادہ تر روسیوں ساختہ ہیں ۔اچھی خبر یہ ہے کہ بھارت پچھلے کئی سالوں سے روس کے ہتھیاروں کی خریداری کو کم کرتا جا رہا ہے اور دوسرے ممالک سے خریدنے پر غور کر رہا ہے ، ہمیں بھارت کی مدد کرنا ہو گی اور ان کے اس عمل کو سراہنا ہو گا "برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے بھی گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ لندن کو بھارت کے ساتھ قریبی اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ اسے روس پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے۔ 2011 سے، نئی دہلی نے روس سے اپنی دفاعی درآمدات میں 53 فیصد کمی کی ہے۔روس میں ہندوستان کے سابق سفیر ڈی بی ورما نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوے کہا کہ عالمی طاقتوں کی لڑائی میں بھارت کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جانا چاہیے ، کیونکہ اس جنگ میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیںایک عالمی خبر رساں ادارے نے یہ بھی اطلاع دی کہ روسی سامان کی خریداری کو ہموار کرنے کے لیے، ہندوستانی حکام دو طرفہ تجارت کو جاری رکھنے کے لیے روس کے ساتھ ایک روپیہ-روبل میکانزم بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ہندوستانی حکام کو تشویش ہے کہ روس سے کھاد کی اہم سپلائی میں خلل پڑ سکتا ہے کیونکہ پابندیوں میں شدت آتی جا رہی ہے، جس سے ہندوستان کےزرعی سیکٹر کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ان کے مطابق اصل منصوبہ یہ ہے کہ روسی حکومت اور کمپنیز بھارتی سرکاری بنکس میں اکاؤنٹ کھولیں گی جس سے روپیہ اور روبل میں تجارت کی جا سکے گی ، جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں . کیا انڈین روپیہ اور روبل میں تجارت ممکن ہے ؟یقینا اگر دونوں ممالک اس حوالے سے آپس میں ایک انڈرسٹنڈنگ بنا لیتے ہیں توبظاھر بہت آسان معلوم ہوتا ہے مگر یہ اتنا بھی آسان نہیں – سب سے پہلے امریکہ اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کر سکتا ہے کہ کیونکہ امریکہ پہلے ہی ایس 400کی ڈیل کو لے کر بھارت سے نالاں نظر آتا ہے ، جبکہ امریکہ پوری دنیا کے ممالک سے روس کی مخالفت کروانے پر تلا ہے مگر بھارت نے ابھی تک امریکہ کو اس حوالے سے خوش نہیں کیا، جس کے دور رس اثرات بھارت پر پڑیں گے .