استنبول(پاک ترک نیوز)
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی صدر رجب طیب اردوان رمضان المبار ک کے دوران سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ اس حوالے سے سب سے اہم پیشرفت صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس کی سعودی عرب منتقلی ہے ۔
ترکی کی جانب سے گزشتہ ایک برس کے دوران خطے کے مختلف ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کیلئے سفارتی مہم چلائی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی کے عرب سپرنگ ، اخوان المسلون کی حمایت کی وجہ سے بیشتر عرب ممالک سے تعلقا ت کشیدہ ہوگئے تھے۔
ترکی اور عرب ممالک کے درمیان خلیج میں اس وقت اضافہ ہوا جب خلیجی ریاستوں نے ترکی کے اتحادی قطر کی ناکہ بندی کی۔
لیکن ان تمام عوامل میں سب سے زیادہ نقصان دہ جمال خاشقجی کا قتل ثابت ہوا۔ خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں مبینہ طور پر قتل کیا گیا ،بعد ازاں امریکی سی آئی اے نے کہا کہ ممکنہ طور پر اس قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کیجانب سے دیا گیا۔ اس واقعے سے نہ صرف ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہوئے بلکہ محمد بن سلمان کا امیج بھی بری طرح متاثر ہوا۔
اس سارے معاملے میں سعودی حکومت کو لابنگ کیلئے پانی کی طرح پیسہ بہانا پڑا اور عالمی سطح پربھی اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
اردوان کے دورہ سعودی عرب کا باضابطہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے ۔ اس سے قبل دونوںممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان بھی اسلام آباد میں ملاقات ہو چکی ہے۔
ترکی سعودی عرب سے تجارتی، معاشی تعلقات میں اضافہ اور باہمی سرمایہ کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ خاشقجی والے معاملے کے بعد سعودی عرب نے ترک مصنوعات کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا تھاجس سے ترکی کی برآمدات متاثرہوئیں۔
اردوان ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات طرز کا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں کرنسی سویپ اور دس ارب ڈالر کا سرمایہ کاری فنڈ شامل ہے۔ ایسے حالات میں جب ترکی معاشی مشکلات سے دوچار ہے، ان تعلقات میں بحالی پہلے سے زیادہ اہم ہو چکی ہے۔
ترک فرموں کے لیے سعودی مارکیٹ تک رسائی منافع بخش ہوگی جب کہ سیاحت اور سرمایہ کاری بھی معیشت کو فروغ دے گی۔ متحدہ عرب امارات کے برعکس سعودی عرب ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ "تمام قسم کے ترک سامان موجود ہیں جو سعودی عرب کو زیادہ سے زیادہ برآمد کیا جاسکتا ہے