استنبول میں مقدس تبرکات محفوظ کرنے کے پیچھے کیا حکمت ہے؟

(پاک ترک نیوز)

توپ کاپی محل ، جو کئی صدیوں تک عثمانی خلفا کی طاقت کا مرکز اور سکونت گاہ رہا ہے ، میں اسلام کے انتہائی اہم اور قیمتی مقدس تبرکات محفوظ کیے گئے ہیں ۔ ان تبرکات میں پیغمبر اسلام کے استعمال کی ذاتی اشیا بھی شامل ہیں۔
توپ کاپی محل میں ایک مخصوص عمارت کو چیمبر آف ہولی ریلیکس کہا جاتا ہے جہاں عالم اسلام کے سب سے قیمتی اور مقدس اثاثہ جات موجود ہیں۔ ان تبرکات میں جناب رسالت مآب کے استعمال میں رہنے والی چادر، آپ کی تلوار کے علاوہ اسلام کے چاروں خلفا ئے راشدین کی تلواریں رکھی گئی ہیں۔
اس کمرےمیں دیگر انبیا یعنی حضرت موسیٰ، حضرب ابراہیم ، حضرت یوسف اور حضرت داوود کے زیر استعمال اشیا بھی موجود ہیں۔
چیمبر آ ف ہولی ریلیکس جس عمارت میں قائم ہے وہ عثمانی سلاطین کے زیر استعمال رہنے والا ذاتی کمرہ تھا جہاں انتہائی حساس پالیسیوں اور مسائل پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا۔ عثمانی سلاطین ان مقدس تبرکات کو ہمیشہ اپنے قریب رکھنا چاہتے تھے کیوں وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ مقدس تبرکات انکے اسلامی دنیا پر خلافت و اقتدار کی سند ہیں۔
جناب رسالت مآب محمد مصطفیٰ کی چادر مبارک اموی دور سے خلافت کے نشان کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔
عثمانی سلاطین کو مختلف ادوار میں بہت ہی قیمتی تبرکات وراثت میں ملے۔ ان میں زیادہ تر اشیا 1517میں اس وقت عثمانیوں کو ملیں  جب سلطان سلیم اول نے مشرق وسطیٰ کا بیشتر حصہ فتح کیا اور مملوک حکمرانوں کو شکست ہوئی۔ سلطان سلیم کے دور میں عثمانی سلطنت جدید دور کےمصر، شام ، لبنان، فلسطین، اردن اور جزیرہ نما عرب تک پھیل گئی ، اسکے ساتھ ہی عثمانیوں نے خلافت پر اپنے حق کا دعویٰ کیا جسے ان تبرکات کی وجہ سے قبولیت ملی۔
اس دوران تبرکات والا کمرہ اپنی علامتی اہمیت کی وجہ سے محل کا سب سے محفوظ کمپاونڈ بن گیا کیوں کہ یہ سلطان کا ذاتی کمرہ تھا۔ آنے والے سالوں میں عثمانی حکمرانوں کی نبی اکرم سے محبت کی وجہ آپ سے منسوب مزید تبرکات جمع کرنےکا سلسلہ جاری رہا۔
اس کمرے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ عثمانی سلاطین اس کمرے میں بیعت لیتے، سوتے تھے اور انتقال کے بعد انہیں اسی کمرے میں غسل دیا جاتا تھا۔ اس کمرے کی تعمیر سلطان محمد فاتح نے استبول فتح کرنےکے بعد تعمیر کروائی۔ اس چیمبر کی بعد ازاں توسیع کی گئی اور اسکو انتہائی اہمیت حاصل ہوئی ۔ یہ ایک ایسے مقام کی حیثیت اختیار کرگیا جہاں سلاطین اور حکومتی عہدیدار ان تبرکات کی زیارت کرتے ۔ ان تبرکات کی وجہ سے استنبول کو اسلامی دنیاکے سیاسی اور مذہبی مرکز کی حیثیت مل گئی۔
17ویں صدی میں اس چیمبر کو بیت الخلافہ کہا جانے لگا اور ان تبرکات کو عثمانی سلاطین کی خلافت کی علامت سمجھا جانے لگا۔
عثمانیوں کو ان تبرکات کے ساتھ بہت دلچسپی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انکے ادوار میں دیگر پیغمبران سے منسوب تبرکات بھی جمع کیے جاتے رہے۔ ماضی کے بیت الخلافہ اور آج کے چیمبر آف ریلیکس میں 600مقدس تبرکات موجود ہیں ، ان میں حضرت ابراہیم کا پیالہ، حضرت موسیٰ کا عصا اور حضرت یوسف کی پگڑی بھی شامل ہے۔
انیسویں صدی کے اوائل میں سلطان محمود دوئم نے اس کمرے کو چھوڑنے اور اسے مقدس تبرکات کیلئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ انکا بیٹا عبدل المصید اول جس نے عثمانی سلطنت کو جدید بنانے کیلئے بہت سے اقدامات کیے ،نے 1856میں توپ کاپی محل چھوڑ دیا اور آبنائے باسفورس کے ساحل پر ایک فرانسیسی طرز کے نو تعمیر شدہ محل ڈولما باچے میں منتقل ہوگیا۔
1918میں جب سلطنت عثمانیہ روبہ زوال تھی ، اسکے ایک جرنیل فخر الدین پاشا نے مدینہ منورہ میں اتحادی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا حالانکہ اسے استنبول سے اسکے احکامات ملے تھے۔ فخر االدین پاشا نے اپنے سپاہیوں سے ایک جذباتی تقریر میں کہا کہ میں تم سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نام پر اپیل کرتا ہوں ، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ دشمن کی طاقت سے قطع نظر آخری کارتوس اور آخری سانس تک اس شہر کا دفاع کرنا۔ اللہ ہماری مدد فرمائے اور محمد رسول اللہ کی دعائیں ہمارے ساتھ رہیں۔
لیکن اسکے ماتحت افسران نے اسے سلطان کی حکم ادولی پر گرفتار کرلیا ، یہ گرفتاری سلطنت عثمانیہ کے اتحادی افوا ج کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے 72دن بعد عمل میں آئی۔ یعنی بہتر دن تک فخر الدین پاشا نے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے مدینہ منورہ کا دفاع کیا۔
فخر الدین پاشا کو استنبول بھیجا گیا لیکن مدینہ چھوڑنے سے پہلے وہ بہت سے اہم تبرکات بھی ساتھ لیتا آیا جو آج بھی توپ کاپی محل میں محفوظ ہیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More