اسرائیل عرب تعلقات :مشرق وسطیٰ کی نئی حقیقت

 

 

 

 

سلمان احمد لالی
امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں کم ہوتی دلچسپی اور چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی مخاصمت نے عرب ممالک اور اسرائیل کو اپنی سیکیورٹی کیلئے نئی طرز فکر اپنانے پر مجبور کردیا ہے۔ دہائیوں تک واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں اپنی افواج کے ذریعے اتحادی ممالک کی سیکیورٹی اور خطے میں طاقت کا توازن اپنےاور اسرائیل کے حق میں رکھنے کیلئے اپنے عسکری، معاشی اور سفارتی وسائل بروئے کار لاتا رہا ہے۔ لیکن چین کی بطور ابھرتی ہوئی معاشی، عسکری و سیاسی قوت نے اسے مشرق بعید میں اپنی توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں دو حقیقتیں واضح ہو چکی ہیں، عرب ممالک کو اپنے تحفظ کیلئے خود اقدامات کرنا ہوں گےاور اس مقصد کے حصول کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے ۔ ایران اسرائیل اور دولت مند خلیجی ریاستوں کا مشترکہ حریف ہے جس نے شام، عراق اور یمن میں اپنی پالیسیوں سے منوا دیا ہے کہ اسے نظر انداز کرنا فاش غلطی ہوگی۔
اسرائیلی صد ر کے امارات کے حالیہ دورے نے وسیع تر عرب اسلامی دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ انہیں فلسطین کو بھول کر اپنے تحفظ اور بقا کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔
امارات اور اسرائیل کے درمیان ابراہم ایکارڈ کے ذریعے قائم ہونے والے سفارتی تعلقات اب توانائی ، زراعت، سیاحت اور سیکیورٹی جیسے شعبوں میں تعاو ن میں بدل رہے ہیں۔
امارات کا اسرائیل کے ساتھ ابراہم ایکارڈ پر دستخط کرنے کے بعد دوطرفہ تجارتی حجم ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ 2031 تک اس دوطرفہ تجارت کو ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچانے کا ہدف متعین کیا گیا ہے۔
امارات اپنی معیشت متنوع بنانے کیلئے اسرائیلی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتی ہیں۔
ہرزوگ کے دورہ ابو ظہبی کے دوران حوثی باغیوں کے مزائل حملو ں متحدہ عرب امارات کی بطور مستحکم اور پر امن ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جو اب تک عرب دنیا میں ہونے والی لڑائیوں کے اثرات خود تک پہنچنے سے بچتا آیا ہے۔ اس سے اسرائیل کو یو اے ای کی صورت میں اسکی ملٹری ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس، میری ٹائم سیکیورٹی میں مہارت کے شعبوں میں ایک ضرورت مند گاہک میسر آسکتا ہے۔
امارات اور سعودی عرب اسرائیل طرز کا آئرن ڈوم حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ کاوشوں سے تشکیل پانے والا ایک بے حد موثر ائیر اینڈمزائل ڈیفنس سسٹم ہے جو ا نہیں حوثی باغیوں کے ڈرون اور مزائل حملوں سے بچائے اور اسکے دفاع کو مضبوط بنائے رکھے۔
اسکے علاوہ تاریخی اعتبار سے بھی یو اے ای اور اسرائیل کی کچھ پالیسیوں میں مماثلت رہی ہے۔ دونوں ممالک اسلامی سیاسی تحاریک کے علاوہ عرب سپرنگ اور ایران کی مخالفت جیسے معاملات پر ایک ہی جیسی پالیسی رکھتے ہیں۔
اب جبکہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے اپنی توجہ ہٹا کر چین سے نمٹنے کی تیاری میں مصروف ہے تو خلیجی ریاستیں اور اسرائیل کےامریکہ کے بعد کے دور کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔لیکن یہ تمام چیزیں بذات خود خلیجی ممالک کیلئے خطرات سے پر ہیں۔ان ممالک میں حکمرانوں کے خلاف جذبات کو ئی پوشیدہ بات نہیں ہے ، ایسے میں ایران جیسے ممالک خلیجی حکمرانوں کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر وہاں عدم استحکام کا بیج بو سکتےہیں۔ پورے عرب جس نےاسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑی ہیں اور اسلامی دنیا میں یہ تاثر پھیل سکتا ہے کہ خلیجی حکمران فلسطین کو فراموش کر کے صیہونی طاقت کے آلہ کار بن چکے ہیں وہ بھی اپنے ذاتی اقتدار کے دوام کیلئے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More