افغانستان کے ہمسائے طاقت کے بل بوتے پر آنے والی حکومت کو تسلیم نہ کریں، امریکہ

واشنگٹن(پاک ترک نیوز) امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان کے پڑوسی کابل میں کسی ایسی حکومت کو تسلیم نہ کریں جو طاقت کے ذریعے مسلط کی گئی ہو۔

یہ مطالبہ بدھ کے روز دوحہ میں ہونے والے ٹرائکا پلس ممالک کے اجلاس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کی سہ پہر نیوز بریفنگ میں کیا۔

یہ گروپ جس میں امریکا، روس، چین اور پاکستان شامل ہیں، کا مقصد افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔

نیوز بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ رواں ہفتے دوحہ میں دو اہم ملاقاتیں ہو رہی ہیں جس میں خطے اور اس سے آگے اور کثیر الجہتی تنظیموں کے نمائندے اکٹھے ہوئے ہیں۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ ‘ان کے شرکا، افغانستان میں تشدد میں کمی، جنگ بندی اور کسی بھی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا عزم کریں گے جو طاقت کے ذریعے مسلط کی گئی ہو’۔

قطری دارالحکومت دوحہ میں یہ ملاقاتیں اس وقت ہو رہی ہیں جب طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی حکومت کو شکست دینے کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے۔

بدھ کے روز طالبان نے افغانستان میں مزید تین صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا ہے جس کے بعد ان کے زیر قبضہ اہم شہروں کی تعداد بڑھ پر 9 ہوچکی ہے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں واشنگٹن کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

پاکستان نے اپنے خصوصی سفیر محمد صادق اور کابل میں اپنے سفیر منصور خان کو مذکورہ مذاکرات میں شرکت کے لیے بھیجا ہے۔

روس کی جانب سے افغانستان کے سفیر ضمیر کابلوف اور چین کی جانب سے افغانستان میں نئے تعینات سفیر یو ژاؤ یونگ اپنے ممالک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

ان تمام ممالک کا افغانستان میں امن لانے میں بڑا حصہ ہے اور وہ اپنے اختلافات کے باوجود افغان تنازع پر علاقائی اتفاق رائے کے خواہاں ہیں۔

پریس بریفنگ میں نیڈ پرائس نے کہا کہ زلمے خلیل زاد کو دوحہ بھیجا گیا ہے تاکہ ‘تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر بین الاقوامی سطح پر ایک اجتماعی ردعمل کو آگے بڑھایا جاسکے’۔

تاہم امریکی میڈیا نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد وہاں اس لیے موجود ہیں تاکہ طالبان کو زمین پر فوجی فتح حاصل کرنے کے خلاف خبردار کریں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ‘وہ انہیں ایک دو ٹوک پیغام دیں گے کہ افغانستان میں طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا’۔
رواں ہفتے کے آغاز میں وائس آف امریکا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں افغان نژاد امریکی سفیر نے خبردار کیا تھا کہ اگر طالبان نے طاقت کے ذریعے ملک پر قبضہ کیا تو وہ دنیا کی ایک تنہا ریاست بن جائیں گے۔

انہوں نے باغیوں کو یاد دلایا کہ ‘پائیدار امن کے لیے ایک سیاسی معاہدہ ہونا چاہیے اور ہم اس سے جڑے رہیں گے’۔
توسیعی ٹرائکا، جو ماسکو کی جانب سے شروع کیا گیا ایک گروپ ہے، افغان تنازع کے مذاکرات کے حل کے لیے باقاعدگی سے مشاورت کرتا ہے۔

اس اجلاس میں روس، اقوام متحدہ اور امریکا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

توسیعی ٹرائکا دوحہ میں مقیم طالبان اور کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ مشاورت کر رہا ہے تاکہ سست رفتار بین الافغان امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ یہ گروپ دوحہ میں مذاکرات کے راستے پر کاربند ہے اور نہیں چاہتا کہ وہ ٹوٹ جائے۔
تاہم دوحہ میں افغان حکومت کے وفد کے ایک رکن نے مذاکرات میں ‘فریقین کی سنجیدگی کا تعین کرنے کے لیے’ ثالثی کا مطالبہ کیا۔

تاہم طالبان کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ‘یہ حکومت تھی جس نے ایک ثالث کو مسترد کیا تھا، طالبان نے نہیں’۔
پیر کے روز امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا اور ‘امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے اور خطے میں متعدد مشترکہ مفادات کو جاری رکھنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا’۔

پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے مزید کہا کہ ‘سیکریٹری لائیڈ آسٹن اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کی جاری صورتحال، علاقائی سلامتی اور استحکام و دوطرفہ دفاعی تعلقات پر وسیع تر تبادلہ خیال کیا’۔

ایک صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا، پاکستانی قیادت کے ساتھ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر موجود محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘محفوظ پناہ گاہیں افغانستان کے اندر عدم تحفظ اور عدم استحکام کا ذریعہ فراہم کر رہی ہیں’۔

تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کے مسائل کے لیے پاکستان کو قربانی کے بکری کے طور پر استعمال کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک حالیہ بریفنگ میں کہا تھا کہ ‘پاکستان کو دوسروں کی ناکامیوں کے لیے قربانی کا بکرا بنانا بدقسمتی ہے، افغان نیشنل ڈیفنس فورسز کی گورننس کے امور پر غور کرنے کی ضرورت ہے’۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More