صدر رجب طیب ایردوان نے اپوزیشن کے ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے جس میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے ترکی کے مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 128 ارب ڈالر کے گھپلے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
وہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر ایردوان نے کہا کہ نہ تو یہ اعداد و شمار ہی ٹھیک ہیں اور جس طرح 128 ارب ڈالر کے غائب ہونے کی بات کی گئی ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
ان الزامات پر پہلے دن سے ہی حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن محض پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے۔
انقرہ کے صدارتی محل میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہی کسی کو دیئے گئے اور نہ ہی انہیں ضائع کیا گیا ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ 2019 اور 2020 میں عالمی معیشت میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث ترک سینٹرل بینک کو غیر ملکی ادائیگیوں پر بروقت فیصلے کرنے پڑے۔ خاص طور پر 2020 نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھر کی معیشتوں کے لئے ایک مشکل ترین سال تھا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے لڑنے کے لئے دنیا بھر کے مختلف ممالک نے اپنے عوام اور کاروباری اداروں 16 ہزار ارب ڈالر کی مالیاتی امداد دی جبکہ مرکزی بینکوں نے 10 ہزار ارب ڈالر کی بجٹ کو سہارا دینے کے لئے فراہم کئے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ سیاحت سے آنے والی آمدنی ختم ہونے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے انخلا سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ رئیل سیکٹر کو اپنے غیر ملکی قرضوں کے لئے بھی زرمبادلہ کی ضرورت تھی۔
ترک عوام نے اپنی بچتوں کو ڈالر میں تبدیل کرنا شروع کر دیا جس کے باعث ٹرکش لیرا پر دباؤ بڑھ گیا۔
صدر ایردوان نے کہا کہ سینٹرل بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے 30 ارب ڈالر کی فنانسنگ فراہم کی۔ دوسری طرف ترکی سے 31 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا انخلا بھی ہوا۔ یہ رقم بھی سینٹرل بینک نے اپنے زرمبادلہ سے ادا کی۔
رئیل سیکٹر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے 50 ارب ڈالر فراہم کئے گئے۔ اس کے علاوہ عوام نے 54 ارب ڈالر کی غیر ملکی کرنسی اور گولڈ میں سرمایہ کاری کی۔
معیشت کے صرف چار شعبوں کی 165 ارب ڈالر کی ڈیمانڈ کو پورا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سینٹرل بینک اگر غیر ملکی ادائیگیوں کا بروقت فیصلہ نہ کرتا تو 1994 اور 2001 کی طرز کا معاشی بحران پیدا ہو جانا تھا جو کہ ایک خطرناک صورتحال تھی۔