یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ جنگ کا ایک فن ہے۔ ایران کے دشمنوں کا اصل ہدف اور ممکنہ طور پر خود ایران بھی ایک خوفناک جنگ اور جنگی تنازعے کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن ابھی تمام نظریں امریکہ میں اگلے پچاس دنوں میں نئے امریکی صدر کی حلف برادری کی تقریب پر لگی ہوئی ہیں۔
تناوٗ اور تنازعات سے بھرپور خطے میں بدلہ لینے جیسے بیانات ایک غیر متوقع لیکن ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل کے بعد جس طرح صدر حسن روحانی نے اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا ہے تو کیا اب مشرق وسطیٰ دوباہ ایک نئی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
گو کہ اس قتل میں ایران نے ابھی تک پر امریکہ پر براہ راست ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا ہے لیکن اس کے باوجود صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے سخت گیر رہنماوٗں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکہ ایران کے ساتھ کسی بھی طور پر براہ راست جنگ نہیں کرنا چاہتا اور شائد یہی امریکی پالیسی ہے۔
امریکہ اس وقت فوری طور پر افغانستان اور عراق سے اپنی فوجیں واپس بلانے میں مصروف ہے۔ امریکی انتظامیہ ختم نہ ہونے والی جنگوں کے خاتمے کی مہم چلا رہی ہے۔ ایران کے ساتھ ایک بھرپور جنگ خطے میں ایک نئے بحران کو جنم دے گی۔ خطے میں امریکی سفارتکار اور امریکہ کا اتحادی اسرائیل اس وقت ایران اور اس کی حمایت یافتہ لبنان کی حزب اللہ کے میزائل کے ممکنہ حملوں کی زد میں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ براہ راست جنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسے اقدامات کئے ہیں جس سے خطے میں نفرت کی آگ کے شعلے اس قدر بلند ہو چکے ہیں کہ اب مفاہمت کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ امریکہ کے لئے یہ کام آسان تھا سو اس نے اس کو ترجیح دی۔
صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کو ٹھیک طریقے سے اختیار نہیں کیا اور اب اس غلطی کا خمیازہ آنے والی نئی امریکی حکومت کو بھگتنا ہو گا۔
نئے منتخب امریکی صدر جو بائیڈن ایران کے ساتھ 2015 کے ایٹمی معاہدے کو دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ اس میں کچھ گنجائش اور اس کا دائرہ کار بھی وسیع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس پر جو بائیڈن نے ایک واضح موقف اختیار کیا ہے۔
ابھی امریکی انتظامیہ ایران کے جواب کی منتظر ہے اور تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔ دوسری طرف ایران اپنے کسی جارحانہ ردعمل سے امریکہ کے لئے سُبکی بھی پیدا کر سکتا ہے۔
جب تک مذاکرات کی میز سج نہیں جاتی اس وقت تک امریکہ اور ایران کے اعلیٰ عہدیدار خطرے میں دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تمام صورتحال نو منتخب صدر بائیڈن کو اپنی پالیسی کو آگے بڑھانے سے کسی طرح روک نہیں سکتی تاہم یہ امر طے شدہ ہے کہ بائیڈن کے لئے مشرق وسطیٰ کے تنازعے سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔
نئے امریکی صدر اس تمام صورتحال کا ذمہ دار سبکدوش ہونے والے صدر ٹرمپ کو قرار دے کر مستقبل میں ایک نرم پالیسی کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے 8 مئی 2018 کو ایران کے ساتھ طے پانے والے 2015 کے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
ایران بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کھل کر امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کر سکے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا نے ایران اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ایرانی معیشت بحران کا شکار ہے۔ اس سال جنوری ایران کے سب سے سخت گیر پاسدران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی امریکی حملے میں مارے جا چکے ہیں۔ تاہم ایران ابھی تک اس قتل کا وہ بدلہ نہیں لے سکا جس کا وہ بارہا اعادہ کرتا رہا ہے۔
اب ایران کے ایٹمی سائنسدان کے قتل نے دوبارہ اسے ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ دوبارہ قتل کے بدلے کے صدائیں لگا رہا ہے۔
دوسری طرف ایران میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں جہاں سخت گیر رہنما ایک تبدیلی چاہتے ہیں کہ اب ایران کو اعتدال پسند موقف کو چھوڑنا ہو گا۔
امکان ہے کہ ان انتخابات میں ٹرن آوٗٹ سب سے کم ہو گا تاہم اس بات کے امکانات محدود ہیں کہ انتخابات کے نتائج ایران کے سپریم لیڈر علی خامنائی کی فیصلہ سازی کے اختیارات کو کم کر دیں گے۔
گو کہ ایران کے منصوبے طویل مدتی ہیں اور وہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی بدستور ایران کے دشمن ہی رہیں گے۔ لیکن ایران کسی بھی طور پر امریکہ، اسرائیل یا اس کے اتحادیوں کو کسی بڑے نقصان سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ایران ابھی کسی بھی ملک سے براہ راست جنگ نہیں چاہتا اسی لئے اس کی طرف سے سخت بدلے کے بیانات آتے رہیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایران عملی طور پر کسی فوجی کارروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کے بیانات وہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے وقت بھی دیتا رہا ہے اور اب ایٹمی سائنسدان کے قتل پر بھی وہی بیانات دہرائے جا رہے ہیں۔
اس بات کا بھی ابھی کوئی قوی امکان نہیں ہے کہ ایران کی کونسی حکومتی شخصیت سخت بدلے کا فیصلہ کرے گی۔ اس کا دائرہ کار کیا ہو گا اور اس کو کون عملی جامہ پہنائے گا۔
ایران کے لئے اس کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کا قتل ایک بہت بڑی خفگی کی بات ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایران نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن سے کن تبدیلیوں کی توقع کر رہا ہے؟
اسرائیل کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح خطے میں جنگ کا میدان دوبارہ سجایا جائے۔ اپریل 2018 میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادے کا نام لے کر کہا تھا کہ اسرائیل ایران کا ایٹمی پروگرام بند کر کے رہے گا۔ ظاہر ہے اس میں اسرائیل کا مفاد ہے کہ خطے میں کوئی ملک ایٹمی طاقت نہ بن سکے اور دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم کے لئے بھی ان کے گھر میں سیاسی فضا بالکل سازگار نہیں ہے۔ اسرائیل میں آئندہ سال ایک بار پھر انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن اب اسرائیل کو امریکہ میں اپنے دوست ٹرمپ کی مدد حاصل نہیں ہو گی کیونکہ جنوری میں نئے امریکی انتظامیہ کام شروع کر دے گی۔
اسرائیل کسی بھی صورت میں ایران کے ساتھ اکیلے جنگ نہیں کرنا چاہتا۔ وہ مشرق اور شمال سے آنے والے میزائلوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان میزائل حملوں سے بچنے کے لئے اسرائیل کا اپنا دفاعی نظام کس حد تک موٗثر اور مضبوط ہے۔
ابھی تک اسرائیل نے ایرانی الزامات پر کسی قسم کا ردعمل نہیں دیا ہے۔ اسرائیل کی اس پالیسی میں تین مقاصد چھپے ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایران کے دفاعی نظام کو کمزور کرنا اور دوسرے سفارتکاری کے تمام راستے محدود کرنا ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہے۔
اس تمام صورتحال میں ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ ایران اپنے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کی سیکیورٹی میں ناکام ہوا ہے اور اس کی سیکیورٹی ایجنسیز کمزور پڑ رہی ہیں۔ یہ آنے والے نئے امریکی صدر کو ایک واضح اشارہ بھی ہے کہ ایران کسی حد تک کمزور ہو گیا ہے۔
نئے امریکی صدر جو بائیڈن کے لئے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو ایک اہم اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ ایرانی ایٹمی سائنسدان کے قتل کے بعد وہائٹ ہاوٗس کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ نتن یاہو امریکہ کے لئے جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ایک مفید اور بہتر دوست ثابت ہو سکتا ہے۔
نتن یاہو نے ثابت کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لئے ایک بہترین اتحادی کا کردار ادا کر سکتا ہے جب کہ تہران کے مضافات میں ایران کے ایک اہم ایٹمی سائنسدان کو بم دھماکے میں راستے سے ہٹایا گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ دھماکہ خیز بیانات، چھیڑ چھاڑ اور ردعمل روز کی کہانی ہے۔
لیکن جنگوں کو ضرورت ہوتی ہے ایسے اتحادیوں کی جو اسے مسلسل بھڑکاتے رہیں۔ فی الحال امریکہ، ایران اور اسرائیل کو فوری جنگ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان تمام کے باوجود مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ ایک نئی اور بڑی جنگ کی طرف جا رہا ہے اور اب امن کی صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
اگلی پوسٹ