تحریر: بنی افتخار
امریکہ نےایک بار پھر ڈرون طیارے سے کابل پر آگ برسائی اور طالبان کے زیر انتظام شہر پر حملہ کیا۔ یہ امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد پہلا ایسا ڈرون حملہ تھا۔ اور اس حملے میں انتہائی اہم ٹارگٹ ، القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا گیا ۔
ایمن الظواہری پیشے کے لحاظ سے ایک سرجن تھے جن کے سر پر 25ملین امریکی ڈالر کا انعام تھا۔ ان پر نائن الیون حملوں کو منظم کرنے میں مدد کرنے کا الزام تھا جس میں تقریبا 3000ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح 6بج کر 18منٹ پر کیاگیا ۔اسکے بارے میں ضعیف العمر امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈرامائی انداز میں اعلان کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی سے ہی سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی یاد دلائی جنہوںنے پاکستان میں حملہ کروا کر اسامہ بن لادن کی موت کا اعلان کیا تھا۔ باراک اوبامہ کی طرف سے وہ اعلان اس وقت کیا گیا جب انکی مقبولیت انتہائی کم تھی۔ آج جوبائیڈن جو بھولنے، لڑکھڑانے، خیالی انسان سے مصافحہ کرنے، اونگھنے کی وجہ سے اپنے منصب کیلئے نا اہل ہیں اور انتہائی غیر مقبول ہیں۔ انہوںنے بھی ایسے ہی ایک ٹارگیٹ کو نہیں معلوم کب سے اسی مقصد کیلئے رکھا ہوگا۔ یاد رہے کہ امریکی سی آئی اے پر القاعدہ بنانے، اسکے رہنماوں کو دہشتگرد بنانے اور انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بھی الزامات ہیں۔ نائن الیون حملے والے دن بھی حیران کن طور پر تین ہزار یہودی ملازم غیر حاضر تھے۔
اس حملے کو بہانہ بنا کر مغربی دنیا نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور لاکھوں مسلمانوں کو بھون کر رکھ دیا۔ دیکھا جائے تو یہ حملہ اور القاعدہ امریکی تزویراتی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنے۔
ایمن الظواہری کی موت کی افواہیں ایک طویل عرصے سے گردش کر رہی تھیں۔ اور انکی صحت کی خرابی کی بھی اطلاعات تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایمن الظوہری 2021میں سقوط کابل کے بعد کابل میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے۔ سی آئی اے کئی برسوں سے انکے ساتھ سائے کی طرح لگی ہوئی تھی۔ اور یہ بات ناممکن نہیں کہ ایمن الظواہری کو کابل میں پناہ دلوانے میں امریکی سی آئی اے نے کٹ آوٹ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اسے پناہ دلوائی ہو۔
ویسے بھی کابل سمیت افغانستان کے بیشتر بڑے شہروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امریکی جاسوسوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سقوط کابل جس طرح سے ہوا اس پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا امریکہ نے تو طالبان کی سہولت کاری نہیں کی افغانستان پر قبضے کیلئے۔ کیوں کہ دو دہائیوں کے امریکی قبضے کے چند دن بعد طالبان نے کابل پر پھر قبضہ کرلیا اور امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید اسلحہ پر بھی قبضہ کرلیا۔حیران کن طور پر داعش ، طالبان اور القاعدہ جیسے تنظیمیں جن کے تانے بانے امریکی انٹیلی جنس سے ملتے ہیں وہ اکثر غیر اسلامی اور غیر انسانی حرکات کیلئے جانے جاتے ہیں ، چاہے وہ خواتین کے ساتھ برتاو ہویا عدم برداشت کے غیر فطری رویے ہوں۔ انکا امیج اکثر بربریت اور ظلم والا ہی ہوتا ہے۔
طالبان کا رد عمل :
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی حملے کی تصدیق کی اور اسکے زبانی طور پر مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دینے کی رسمی کاروائی ڈالی ہے۔