بجٹ میں بیان بازی کے علاوہ کیا؟

لاہور(پاک ترک نیوز)
سالانہ بجٹ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ، لیکن اس بجٹ میں وزیر خزانہ نے سیاسی بیان بازی کا جو مظاہرہ کیا وہ بھی اس حقیقت کو چھپانے میں ناکام رہا کہ عوام کیلئے اس بجٹ میں کچھ زیادہ نہیں ہے۔
اگر صرف خلاصہ بیان کیا جائے تو جلد پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جو بجٹ میں پیش کی گئی پیٹرولیم لیوی کی وجہ سے ہوگی۔ اس حوالے سے مفتاح اسماعیل نے عوام کو کھل کر کچھ نہیں بتایا۔ سوشل میڈیا پر ایک تنقید عام نظر آئی کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کو پورا کرنے کیلئے لایا گیا نہ کہ عوام کیلئے۔ کیوں کہ بجٹ بڑا حصہ تو حکومتی اخراجات سے پر تھا، عوام کیلئے ریلیف پر آئی ایم ایف نے قدغن لگا رکھی ہے۔رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
گو کہ اب حکومت نے دو مہینوں کی تاخیر کے بعد آئی ایم ایف کے تمام مطالبے مان لیے ہیں تو کیا امید کی جاسکتی ہےکہ اب اسے ضروری فنڈز جاری کردیے جائیں گے۔
اس بجٹ میں گزشتہ بجٹوں کی طرح سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ حکومت معیشت میں موجود خامیوں، اسٹریکچرل فالٹ کو ٹھیک کرنے کیلئے کسی سنجیدہ اقدام کے اعلان سے قاصر رہی ہے۔ گوکہ اسٹرکچرل ریفارم کی بات ہر حکومت کرتی ہے لیکن اس حوالے سے عملی طور پر ٹھوس اقدام کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ برس کیلئے کرنٹ اکاونٹ خسارے کا تخمینہ 15ارب ڈالر لگا یاگیا ہے تو سوال یہ ہےکہ کیا آئیندہ برس اس خسارے کیلئے پھر کسی آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بننا پڑے گا۔
ایک بڑی غلط بیانی یا شاید غلط امید مہنگائی کی شرح کو گیارہ فیصد تک لانے کا فیصلہ ، دعویٰ یا اعلان ہے۔ حالانکہ تمام آزاد تجزیہ کار وں کے تخمینہ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
بجٹ میں جو اقدامات کیے گئے ہیں اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں ان کے پیش نظر معاشی ترقی یہ معیشت کی شرح نمو کا ہدف 5فیصد رکھا گیا ہے جو انتہائی غیر حقیقی لگتا ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں معاشی سرگرمیوں میں کمی ہوگی ناکہ اضافہ۔ نہ ہی اس میں یہ اس بات کا ادراک نظر آتا ہےکہ عالمی اجناس کی منڈیوں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے عوام پر اثرات کیا ہوں گے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More