تحریر:سلمان احمد لالی
حکومت نے جمعہ کو پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ میں دفاع کی مدمیں ڈیڑھ ہزار ارب روپے کی رقم مختص کی ہے جو کہ گزشتہ برس سے 11.16فیصد زیادہ ہے۔ یہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا 1.94فیصد ہے اور کل بجٹ 16فیصد بنتا ہے۔ جبکہ یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ آئندہ برس دفاعی اخراجات میں 6فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔
اب اس بجٹ کا مواز نہ کرتے ہیں دیگر شعبوں سے۔ موجودہ بجٹ میں ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے بجٹ میں گیارہ فیصد ، صحت میں 31فیصد، تعلیم میں 1.5فیصد، ہاوسنگ میں 77فیصد کٹوتیاں کی گئی ہیں ، ایسے میں دفاعی بجٹ میں گیارہ فیصد سے زائد اضافے سے بہت چہروں پر تعجب نظر آتا ہے۔لیکن اس دفاعی بجٹ میں ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن کی مد میںادا کی جانے والے بھاری رقم اسکے علاوہ ہے۔
ایسے بہت سے اخراجات ہیں جو کبھی ظاہر نہیں کیے جاتے انمیں دفاعی سازو سامان کی در آمدات پر اٹھنے والا خرچ، جوہری پروگرام کو چلانے کیلئے مطلوبہ رقم وغیرہ۔ اسلیے یہ تاثر عام ہےکہ یہ اخراجات بجٹ میں پیش کیے جانے والے تخمینہ سے کافی زیادہ ہیں۔
اگر اس کو مزید گہرائی سے دیکھا جائے تو دفاعی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ یعنی 47.6فیصد بری افواج، 21.3فیصد فضائیہ کو، بحریہ کو 10.85فیصدملا ہے۔ جبکہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ ، انٹر سروسز آگنازئشنز کو 20.33فیصد حصہ ملا ہے۔
دفاعی بجٹ میں سب سے زیادہ خرچ ملازمین کی تنخواہوں اور الاونسز کا احاطہ کرتا ہے۔ اسکے بعد آپریشنل اخراجات بھی ہوتے ہیں، انفراسٹرکچر کی مرمت اور ڈیویلپمنٹ کا کام، اسلحہ اور گولہ بارود کی خریداری وغیر ہ پر بھی خرچ اٹھا ہے۔
ایسے میں موجودہ سیاسی ماحول اور سماجی تفریق کے باعث بلا سوچے دفاعی بجٹ پر انگلیاں اٹھنا غیر متوقع نہیں ہے۔
لیکن کیا یہ تنقید منطقی ہے یا بلا جواز ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایک ریاست کی سب سے بنیادی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ اس بات پر تمام علما اور اسٹیٹ کرافٹ کے ماہرین متفق ہیں کہ ریاست کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری ملکی سرحدوں اور عوام کا دفاع ہے۔ اور پاکستان جیسی ریاست جسے اپنے قیام کے وقت سے ہی بیرونی خطرات کا سامنا رہا ہے ، اسے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اس ذمہ داری کو زیادہ سنجیدگی سے سرانجام دینا ہوتا ہے۔ پاکستان کے خلاف تین جنگیں ، بلوچستان میں شورش، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عدم استحکام، دہشتگردی، مشرقی بارڈر کے بعد مغربی بارڈر پر مسلسل غیر یقینی کی صورتحال وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے وجود کا دفاع کرنے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھے۔
موجودہ حالات میں دفاعی بجٹ میں اضافہ اسی نقطہ نظر کے تحت کیا گیا ہےکہ ملک کو درپیش مالی چیلنجز کا پاکستان کی عسکری صلاحیتوں پر منفی اثر نہ پڑے۔
حالانکہ مسلح افواج نے رواں برس بجٹ میں اضافی فنڈز کامطالبہ نہیں کیا۔افواج پاکستان نے معاشی صورتحال کے تحت یوٹیلٹی بلوں، ایندھن، تربیت کے اخراجات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسکے علاوہ ہنگامی حالات کے علاوہ سرکاری ٹرانسپورٹ کو نجی استعمال میں نہیں لایا جاسکے گا۔
اسکے باوجود دفاعی بجٹ کا دیگر شعبوں بالخصوص تعلیم اور صحت کے بجٹ کے ساتھ موازنہ عام پاکستانی کے ذہن میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اور اس تحریر میں انہیں سوالات کے جوابات دینے کی ایماندارانہ کوشش کی جائے گی۔
جب بھی دفاعی ضروریات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے تو سب سے پہلے کسی بھی ریاست کو درپیش دفاعی چیلنجز کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ کیا کوئی پاکستانی یہ بات بھول سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی بھارت پاکستان کے وجود کو مٹانے کیلئے کس طرح سے سرگرم عمل رہا ہے اور ابھی بھی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر مظالم اور مودی سرکار کے آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان پر قبضے کے علاوہ پاکستان کے زرخیز زمینی علاقوں کو کاٹ دینے کے اسٹریٹجک منصوبوں سے کون واقف نہیں؟ایسےمیں پاکستان اپنی سرزمین کے کم ازکم دفاع کی صلاحیت کو برقراررکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ بجٹ کافی ہے ؟اسکا جواب ہمیں پاکستان کے دفاعی بجٹ کے بھارتی بجٹ کے ساتھ موازنے کے بغیر نہیں ملتا۔ پاکستان کو وہ ضنحیم بجٹ جو کئی حاسدین کے سینوں پر مونگ دلتا ہے اور لبرل طبقہ اسے ہمیشہ سے ہی اپنے پراپیگنڈا کا نشانہ بناتا ہے ، بھارت سے 6گنا کم ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 70ارب ڈالر ہے۔ یعنی پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی کا اٹھارہ فیصد بھارت اپنے عسکری شعبے پر خرچ کرتاہے جبکہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.94فیصد کرنے پر مجبور ہے۔ بھارت میں پراوین سواہنی جیسے عسکری دانشور اس بات پر حکومت کو مسلسل قائل کرنے کی کوشش کررہےہیںکہ وہ اپنا دفاعی سازو سامان جدید ضروریات سے اہم آہنگ کرتے ہوئے مزید خرچ کرے۔ ایسے پاکستان اپنے موجودہ دفاعی وسائل اور صلاحیت کو برقرار ہی رکھ سکتا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس سے ہر پاکستانی کو وقف ہوناچاہیےکہ ہمارا دشمن ملک جس کے عزائم کے مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی ساری کی ساری عسکری حکمت عملی تشکیل پاتی ہے وہ ہمارے دفاعی بجٹ سے 6گنازیادہ ہماری خودمختاری کو ہم سے چھیننے کیلئے خر چ کر رہا ہے۔
پاکستان کے دفاعی اخراجات کو بحث بلکہ پراپیگنڈا کی صورت میں بدنام کرنا یہ ملک کے لبرل طبقے کی پرانی روش ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو ماضی میں پیپلز پارٹی اور اب ن لیگ کے رہنماوں کے کانوں سے میں سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں کرتے پائے جاتے ہیں ، نے ملک کے دفاع کو منتازعہ بنانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا۔ کیا ایک قوم اپنی آزادی کی اس حد تک قدر نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی غیر ت و حمیت کیلئے اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھا نہیں سکتی تو برقرار تو رکھے۔ مجھے اپنے ہم وطنوں یہ یاد دلانا پڑھے کہ دین اسلام میں عسکری تیاری، فوجی قوت کے اظہار و نمائش کے حوالے کیا احکامات ہیں۔ کیا قر آنی آیات اور ان گنت احادیث اس بابت بہت تفصیل سے مسلمانوں ہدایات نہیں جاری کرتیں؟
کیا کچھ شخصیات پر غصہ ، ناراضی، مایوسی یا شدید محبت کے بعددل ٹوٹنے کی کیفیت کو اہم اپنے دینی، ملی اور قومی فریضے پر غالب آنے دیں گے۔ شخصیات آتی جاری رہتی ہیں، لیکن ادارے قائم رہتے ہیں، انکے مقاصد قائم رہتے ہیں ایسے میں پورے ادارے کے کردار پر انگلی اٹھانا کہاں کی دانش مندی ہے۔ اس قوم کو اپنے عساکر سے جنوں کی حد عشق اور عقیدت کسی سے چھپی نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد ہماری صفوں میں دشمن، ہماری آستین کے سانپ، بغل میں غلامی کے بت چھپائے عناصر اس عظیم ادارے پر کیچڑ اچھالتے ہیںجسکا نصب العین ہی جہاد ، شہادت ہے۔
لیکن اس عظیم ادارے کو بھی اب ضرورت ہے کہ وہ مستقل کے اندیشوں کے پیش نظر پاکستانیوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر لازمی عسکری سروس ،رضاکار تربیت پروگرام شروع کرے تاکہ عام آدمی نہ صرف عسکری طرز فکر میں ڈھل سکےبلکہ جب وقت آئے تو آبادی کا بڑا حصہ ریزرو فورس کے طور پر دستیاب ہوسکے۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ امریکہ جیسے ممالک میں ایوان نمائندگان، سینیٹ ارکان کے علاوہ کئی امریکی صدور کا عسکری پس منظر کی افادیت کیا ہے۔ کیا پاکستان میں ان خطوط پر کبھی سوچا گیا؟ سول اور عسکری زندگیوں میں زمین آسمان کے فرق کے بعد بعض افسران کی کوتاہ اندیشی اور احساس برتری سے عوا م میں غم و غصہ ایک بڑی حقیقت ہے۔ اس معاملات کے حل کیلئے بھی ایک جامع حکمت عملی اپنانا بہت ضروری ہے۔ پھر اسرائیل کا میں نے ذکر کیا، وہاں دو سال کی لازمی سروس کے بعد کئی شہریوں نے بہت سے ٹیک اسٹارٹ اپس شروع کیے جو ملٹری کے نظام کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد آج کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ رہےہیں۔ ذرا کوئی صاحب دانش اس بات پر تجزیہ تو کرے کہ وہ اسٹارٹ اپ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت میں کیا کردار ادا کررہے ہیں جن کی ایجاد کردہ ایگری اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے گاہک عرب ممالک سمیت پوری دنیا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ بھی۔
یہ وہ گزارشات ہیں جو میں کرنا چاہتا تھا ، تاہم اس تحریر کے اخر میں جو چند جملے لکھے ان پر مستقبل میں تفصیل سے لکھاجائے گا۔