دنیا میں بھارت کی قدیم درسگاہ علیگڑھ یونیورسٹی کو قائم ہوئے آج ایک سو سال مکمل ہو گئے۔ برصغیر کے مسلم رہنما سر سید احمد خان نے اس علیگڑھ کالج کی بنیاد 1877 میں رکھی تھی تاہم 1920 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔
ترک عوام علیگڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کی اس امداد کو آج بھی یاد رکھتے ہیں جب 1912 کی تریپولی اور بلکان کی جنگ میں اس وقت کے طالب علموں نے 13 ہزار 800 عثمانی لیرا مدد کے لئے جمع کئے تھے۔
اس وقت طلبہ نے اپنے کھانے پینے کے اخراجات میں سے پیسے بچا کر سلطنت عثمانیہ کی مدد کے لئے بھیجے جسے ترک عوام آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ میں سے آٹھ پاکستان، بنگلہ دیش، مالدیپ اور بھارت کے سربراہ بنے۔ اس یونیورسٹی کے 50 سے زائد طلبہ وزرائے اعلیٰ، گورنر، چیف جسٹسز اور بھارت کی مرکزی کابینہ کے وزیر بھی رہے۔
اس یونیورسٹی نے برصغیر کے مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ایک جذبہ پیدا کیا اور آج بھی یہ یونیورسٹی علم کا ایک بہترین گہوارہ ہے۔
امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی کے پروفیسر اور دانشور گیل مینولت کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے طلبہ نے سلطنت عثمانیہ کی اس زمانے میں جو مالی مدد کی تھی آج کی تاریخ میں اس کی مالیت 4 کروڑ 20 لاکھ ٹرکش لیرا بنتی ہے۔
ڈاکٹر احمد مختار انصاری جو یونیورسٹی کے ایک استاد تھے انہوں نے 1928 میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور برصغیر کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت علیگڑھ کالج کے کئی طلبہ نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ترکی گئے اور وہاں بلکان کی جنگ کے میڈیکل مشن میں شامل ہوئے۔
چوہدری خلیق الزماں جو علیگڑھ یونیورسٹی کے طالب علم رہے وہ پاکستان کے ایک ممتاز سیاستدان بھی تھے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے لکھا کہ ایک دن وہ علیگڑھ کالج کے لان میں ٹینس کھیل رہے تھے جب ڈاکٹر انصاری ان کے پاس آئے اور انہیں ترکی میں رضاکار کے طور پر کام کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ چوہدری خلیق الزمان انڈونیشیا اور فلپائن میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹر انصاری نے جن طلبہ کو ترکی جانے پر تیار کیا ان میں کشمیر کے عبدالرحمان صمدانی پٹھان بھی تھے جو بعد میں اینادولو نیوز ایجنسی میں ایک رپورٹر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ اینادولو ایجنسی 1920 میں بنائی گئی تھی۔
ڈاکٹر انصاری نے بہت کوشش کی کہ برطانوی حکومت علیگڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ دے لیکن جب وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو وہ ترکی گئے اور یہاں انہوں نے علیگڑھ کی طرز پر ایک یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔
ترک محکمہ اوقاف نے انقرہ میں 65 ہزار ایکڑ اور ادنہ میں 45 ہزار ایکڑ زمین یونیورسٹی کے لئے وقف کی۔ ڈاکٹر انصاری مسلم یونیورسٹی یا مدینہ یونیورسٹی کے نام سے یہاں یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے۔ برصغیر کے عظیم فلسفی اور شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور شبلی نعمان کو یونیورسٹی کا نصاب تیار کرنے کے لئے کہا گیا۔ لیکن یہ منصوبہ کچھ وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکا اور اسی دوران برطانوی حکومت نے 1920 میں علیگڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ اس یونیورسٹی میں ترکی ٹوپی اور کوٹ کو سرکاری لباس کا درجہ بھی حاصل ہو گیا۔