بھارت کے نئے چیف آف ڈیفنس سٹاف کون ہیں؟

سلمان احمدلالی

بھارت کی موجودہ مودی حکومت نے تینو ں مسلح افواج میں ہم آہنگی اور کوارڈینیشن کیلئے ایک نئے عہدے کی منظوری دی جسے چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا نام دیا گیا ۔ آپ اسے پاکستان کے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سفاف کے برابر کہہ سکتے ہیں لیکن اسکے افعال اور انتظامی لحاظ سے کچھ چیزیں مختلف ہیں۔

مودی حکومت نے اس عہدے پر سب سے پہلے جنرل بپن راوت کو فائز کیاجو بھارتیہ افواج میں سیکولرزم اور سیاسی بیانات کے خلاف روایتی پالیسیوں سے انحراف کی وجہ سے متنازعہ سمجھے جاتے تھے۔ لیکن جنرل بپن راوت نو ماہ قبل ایک ہیلی کاپٹر حادثے  میں ہلاک ہوگئے جس کے بعد سے یہ عہدہ ابھی تک خالی تھا۔ حال ہی میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل انیل چوہان کو نیا سی ڈی ایس مقرر کیا گیا۔ انہیں بھارتی میڈیا میں چینی امور کے ماہر کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ جنرل چوہان بھارتیہ بری افواج سے گزشتہ برس مئی میں بطور مشرقی آرمی کمانڈر ریٹائر ہوئے تھے اور اہم بات یہ ہے کہ وہ دوہزار انیس میں بالاکوٹ فضائی حملے کے دوران ڈی جی ایم او تھے۔

یعنی بالاکوٹ میں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک انکی نگرانی  میں کی گئی اور اسکے بعد وہ اسی عہدے پر فائز تھے جب پاکستان کے  شاہینوں  سے بھارت نے کشمیر کے محاذپر ہزیمت اٹھائی۔ جنرل انیل چوہان کی بطور سی ڈی ایس تعیناتی سے قبل وہ اجیت دوال کی سربراہی میں کام کرنے والے خاصے فعال قومی سلامتی کونسل کے  سیکرٹریٹ میں بطور عسکری مشیر کے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔

یوں بھارت میں یہ بھی پہلی دفعہ ہوگا کہ کوئی سبکدوش تھری اسٹار افسر بطور فور اسٹار جنرل سروس میں واپس آئے گا۔

ابھی تک جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ اس سے دو نتائج اخذکیے جاسکتےہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی اپنی افواج پر گرفت انتہائی مضبوط ہے اور انکے بعض قومی سلامتی اداروں میں کلیدی عہدوں پر عسکری کے بجائے قابل سویلین عہدیدار کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر قومی سلامتی کونسل کے سربراہ اجیت دوال ہیں جو بنیادی طور پر پولیس سروس سے تعلق رکھتے  ہیں لیکن بعد میں انہوں نے زیادہ ترعرصہ خفیہ اداروں آئی بی اور را میں گزارا۔ وہ را کے سابق سربراہ بھی ہیں۔ دوال بھارت کی قومی سلامتی کے حکمت عملی کے علاوہ اکثر بھارت کے خارجہ پالیسی  کے فیصلوں میں بھی اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسکی مثال یہ ہے کہ اگر آپ مودی کے دورہ اسرائیل کی ویڈیو یو ٹیوب پر دیکھیں تو آپ کو دو تاثر ملیں گے۔ ایک تو اس دورے کو نتن یاہو ایک اہم سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہوئے بہت مسرور تھے۔ کیوں کہ یہ کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ اسرائیل تھا۔ اسی ویڈیو میں اگر آپ اس حصے پر سکرول کریں جب مودی اپنے  وفد کا تعارف اسرائیلی وزیر اعظم سے کروارہے تھے تو اجیت دوال کی باری آنے پر نتن یاہو نے رک کر بہت ہی گرم جوشی سے ان سے مصافحہ بھی کیااور وہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ بات میرے میں علم میں ہے کہ اس دورے میں انکا کردار کتنا بنیادی ہے۔ اسکے جواب میں اجیت دوال انتہائی انکساری سے اور پیشہ ورانہ انداز میں انکا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

پاکستان میں قومی سلامتی کےمشیران کو دیکھا جائے تو نصف سے زائد تو فوجی ہی تھے۔ اسی طرح پاکستان کے محکمہ دفاع کے سیکرٹری بھی اکثر سابق فوجی جنرل ہی ہوتے ہیں۔

جنرل چوہان کے عہدے کی کوئی معیاد نہیں ہے اور وہ حکومت کی صوابدید پر جب تک اس عہدے پرفائز رہے ہیں گے وہ فوجی امور کے محکمےکے سیکرٹری کے طور پر بھی کام کریں گے۔یاد رہے کہ یہ محکمہ وزارت دفاع سے الگ ہےجس کا سیکرٹری سویلین ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں جنرل چوہان کے کرئیر کی جانب ، انہوں نے انیس سو اکاسی میں گیارہ گورکھا رائفلز میں کمیشن حاصل کیا اور دوران سروس انہوں نےے نیشنل ڈیفنس اکیڈمی ، کھڑکواسلا، اور دہرا دون میں انڈین ملٹری اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی۔

وہ آپریشن سن رائز کے معمار بھی تصور ہوتے ہیں جو کہ بھارت اور میانمار کا مشترک آپریشن تھا جس کا مقصد متعدد باغی گروہوں کو نشانہ بنانا تھا۔ گزشتہ برس انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد قومی سلامتی کونسل میں مشیر لگایا گیا اور بھارت کے ممتاز دفاعی تجزیہ کار پراوین ساہنی نے کافی عرصہ قبل انکی بطور سی ڈی ایس تعیناتی کی پیشین گوئی کی تھی۔

اس عہدے پر ان کی اولین ذمہ داری بھارت کی وار تھیٹر ائزیشن کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے اور تینوں سروسز کے درمیان بھارتی دفاع سے متعلق درست ساخت اور کمانڈ پر اختلافات کو دور کرنا ہے۔اسکے علاوہ وہ بھارت کی دفاعی ضروریات کے پیش نظر جدید ہتھیاروں کے حصول کی فہرست مرتب کریں گے ۔ کیوں کہ اس سے قبل تینو ں سروسز اپنی اپنی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے فہرستیں بھیجتی تھیں جس کی وجہ سے بنیادی دفاعی ضروریات اکثر نظر انداز ہو جاتی تھیں۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بھارت کی دفاعی ترجیحات میں چین کہیں پیچھے تھا جبکہ کشمیر میں حریت پسند اور پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول اولین ترجیحات تھیں۔ اسکے علاوہ پاکستان کے ساتھ مغربی سرحد کا دفاع بھارتی افواج کیلئے درد سر تھا جہاں ان سے کئی گنا چھوٹی فورس عقاب کی طرح اپنے سے بڑے دشمن پر جھپٹنے کیلئے ہر دم تیار رہتی ہے۔ جو کم وسائل  کے باوجود بہترین تربیت، نظم و ضبط اور تزویراتی اور اسٹریٹجک برتری کی وجہ سے اپنے دفاع کیلئے یکسو ہو کر اور اپنی جانوں کی قربانی دینے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتی ہے۔ لیکن مئی دوہزار بیس میں لداخ کے محاظ پر ہونے والے اسٹینڈ آف اور وادی گلوان میں جھڑپوں کے بعد چین کی جانب سے بھارتی مقبوضہ علاقے کو چھڑانے سے ایک انتہائی بے رحم حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔ چین کے ساتھ جھڑپوں اور پاکستان کے ساتھ مختصر فضائی جھڑپ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی دفاعی کمزوریاں ساری دنیا کے سامنے آشکار ہوگئیں۔

مقامی سطح پر تو بھارتی حکومت میڈیا کی مدد سے جھوٹا بیانیہ تشکیل دے کر اپنی عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن عالمی سطح پر بھارت کو بہت سبکی اٹھانی پڑھی۔ کیوں کہ پاکستان کے پاس بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی صورت میں نئی دہلی کی شکست کا ثبوت تھا۔

گوکہ جنرل چوہان کو اپنے کرئیر کے دوران کئی کمانڈ، اسٹاف اور دیگر تقرریوں کے دوران مقبوضہ کشمیر اور شمال مشرقی ہندوستان میں تحاریک آزادی کو کچلنے کا کچھ تجربہ ہے  لیکن انکو چینی امور کے ماہر کے طور پر پیش کرنا حیران کن ہی ہے۔

حقیقت یہ ہےکہ مودی اس عہدے پر اپنے حامی افسران کو ہی لاتےہیں،جن کے سرپر سیکیورلرزم اور پروفیشنلز م کا بھوت نہ سوار ہو۔ جنرل بپن راوت اسکی بہترین مثال ہیں۔ پھر جنرل چوہان کو انکی جوہری کی نظر نے پہچان لیا کہ یہ کام کے بندے ہیں جو پیشہ ورانہ معاملات کو نظر انداز کرسکتےہیں۔ اور انکی تقرری کیلئے تو حکومت نے جون میں قواعد و ضوابط میں تبدیل کیے تاکہ کوئی تین ستارہ جنرل بھی اس عہدے پر فائز کیا جاسکے۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More