بیانیے کی جنگ سوشل میڈیا کے سنگ

از علی وقار

ووٹ کو عزت دو یا امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ نواز شریف ہوں یا پھر عمران خان بیانیے کی اس جنگ میں فتح اس کی ہوئی جس نے عوام کی نفسیات کو بہتر سمجھا اور دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے "کی بورڈ وارئیرز ” کو میدان میں اتارا،اور اب حالات کو دیکھ کر لگتا ایسے ہے کہ جیسے عمران خان کے سوشل میڈیا جنگجووں نے پی ڈی ایم کی دس سے زائد جماعتوں کے اتحادی لشکر کو بآسانی شکست دے دی ہے،،
دو ہزار اٹھار ہ کے عام انتخابات سے بات شروع کرتے ہوئے آپ کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ انتخابا ت سے قبل پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر موجودہ حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن کی جانب سے الزامات عائد کئے جاتے تھے کہ پاکستان کا ذرائع ابلاغ جتنی زیادہ تشہیر اور کوریج عمران خان کو دیتا ہے اس کے برعکس دوسری جماعتوں کو کوریج نہیں دی جاتی اور یہاں تک بھی آوازیں آتی تھیں کہ عمران خان خالی کرسیوں سے بھی خطاب کرتا ہے تو وہ بھی گھنٹوں براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ چند ایک چینلز پر تو کھلم کھلا تنقید ہوتی تھی جس طرح ان مخصوص چینلز نے عمران خان کی تشہیر کی ہے اگر وہ نہ کرتے تو وزیر اعظم کا منصب انہیں مل نہیں سکتا تھابہر حال الزامات لگانے والے الزام لگاتے رہے اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی بجائے شہری سوشل میڈیا پر زیادہ منحصر کرنے لگے اور جو بیانیہ پہلے جلسے جلوسوں میں بنایا جاتا ہے تھا اب وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں تک صرف ایک بٹن دبانے سے پہنچ جاتا ہے،،
بیانیے کی اس جنگ میں کس جماعت اور لیڈر نے بہتر حکمت عملی اپنائی اور کون مقبول ہونے کے باوجود بھی اپنا بیانیہ بیچ نہیں سکا اس کے لئے میں کچھ حقائق اور تفصیلات آ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں،،سب سے پہلے بات کریں تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی تو پاکستانی سیاسی لیڈرز میں وہ تمام بڑے سیاسی رہنماوں پر سبقت رکھتے ہیں عمران خان کا ٹوئیٹر اکاونٹ دیکھا جائے تو اس وقت ان کے 1کروڑ 73لاکھ سے زائد پیروکار ہیں جبکہ انہوں نے اب تک اپنے بیانیے سے متعلق 7ہزار994 "ٹویٹس”یعنی پیغامات دئیے ہیں ان کے مقابلے میں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے 61لاکھ کے لگ بھگ پیروکار ہیں اور وہ 8ہزار659ٹویٹس کر چکے ہیں،، اسی طرح مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور ان کا سیاسی چہرہ مریم نواز شریف کے ابھی تک 74لاکھ کے قریب فالوورز ہیں اور وہ 67ہزار سے زائد بار ٹویٹس کر چکی ہیں،پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین و وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی ابھی تک سوشل میڈیا پر اڑتالیس لاکھ کے لگ بھگ فالوور بنا سکے ہیں اور اس ڈیجٹل جنگ میں 16ہزار سے زائد بار اپنے دفاع اور مخالفین کے بیانیے کو شکست دینے کے لئے وار کر چکے ہیں،جبکہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے سات لاکھ اور 65ہزار سے زائد فالوورز موجود ہیں اور 2013سے ٹویٹر پر اکاونٹس موجود ہونے کے باوجود ففتھ جنریشن کی اس جنگ میں پیپلز پارٹی کے سپہ سالا ر نہیں بن سکے، مسلم لیگ نواز کے قائد سابق وزیر اعظم نواز شریف اس جنگ میں ابھی بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں جہاں ابھی ان کے 8لاکھ اور 48ہزار سے زائد فالوورز ہیں،، پاکستان ڈیمو کریٹنگ موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس محاذ پر تمام بڑے سیاسی لیڈروں کی صف میں آخر میں نظر آتے ہیں مولانا فضل الرحمن نے اپنا کاونٹ 2012میں بنایا اور لیکن وہ سوشل میڈیا پر اب تک 4لاکھ96ہزا ر کے قریب ہی فالوورز بنا سکے ہیں اور اس دوران انہوں نے صرف ایک ہزار تین سو چالیس بار ٹویٹ میسج کئے ہیں،، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس صورتحال ہیں تحریک انصاف کے سپہ سالار کو باقی سیاسی لیڈورں کی نسبت کس حد تک سبقت حاصل ہے،
یہ تو بات ہوئی سیاست جماعت کے سربراہوں کی لیکن اگر بات کریں سیاسی جماعت کے بیانیے کہ تو پاکستان تحریک انصاف یہاں بھی سب سے آگے ہے جہاں ٹویٹر پر موجود اکاونٹ کی تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف نے 2010میں اپنا اکاونٹ بنایا تھا جبکہ اس کے اب تک 72 لاکھ سے زائد فالوورز موجود ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اس وقت وفاقی اقتدار میں موجود پاکستان مسلم لیگ نواز نے ٹویٹر پر 2012 میں اکاونٹ بنایا اور وہ اب تک 22لاکھ لوگوں کو اپنے بیانیے کی طرف راغب کر سکی ہے جبکہ سندھ میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے 2013 میں اپنا اکاونٹ بنایا اور اب تک صرف10 لاکھ افراد ہی ان کے بیانیے سے متاثر ہو سکے ہیں،، ایسی صورتحال میں واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کونسی سی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر بیانیے کی اس جنگ میں مخالفین کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہے،،
دوسری جانب اگر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ اور رہنماوں کی بات کی جائے تو وہ آج بھی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں چند روز قبل مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا وارئیرز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بولا کہ یہ تتلیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں لیکن انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ آئندہ انتخابات سے قبل بھی اس محاذ پر سرگرم نہیں ہوئے تو پھر ان کی ذرائع ابلاغ کے ذریعے چلنے والی لمبی لمبی تقرریوں اور مہم جوئی سے ان کے مخالفین کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مسلم لیگ ن کے رہنما تو آج بھی نجی گفتگو میں تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے سالانہ 83کروڑ روپے سوشل میڈیا "کی بورڈوارئیرز”کو دینے کی اطلاع پر بحث کرتے سنائی دیتے ہیں اور اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر توجہ دینے میں بہت دیر کر دی ہے۔۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More