نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولن برگ نے کہا ہے کہ ترکی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں کی فتح اس کا عملی ثبوت ہے۔
وہ نیٹو پارلیمنٹ اسمبلی کے 66 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اجلاس میں جرمن ممبر پارلیمنٹ جرگن ٹیٹرین نے کہا کہ ترکی نیٹو کی اقدار اور روایات کی پاسداری نہیں کر رہا ہے اور ترکی میں قانون کا احترام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی لیبیا میں اقوام متحدہ کے اسلحہ پر پابندی کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور مشرقی بحیرہ روم میں جرمن بحری جہازوں کو دھمکا رہا ہے۔ جرمن پارلیمنٹیرین نے کہا کہ ترکی کو نیٹو کا ایک پارٹنر کے بجائے اسے نیٹو کے لئے خطرہ سمجھنا چاہیئے۔
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ترکی نیٹو کا ایک اہم اتحادی ملک ہے۔ یہ اہم اتحادی اس لئے ہے کہ بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترکی نے بروقت اور بھرپور جنگ لڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی نیٹو کا واحد اتحادی ہے جو شام اور لیبیا میں داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم سے تن تنہا لڑ رہا ہے۔ ان ممالک میں داعش نے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا یہ صرف ترکی ہی ہے جس نے ان دہشت گردوں سے ان علاقوں کو آزاد کروایا۔
نیٹو کے کسی بھی اتحادی ملک کے مقابلے میں ترکی دہشت گرد حملوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ دوسری طرف نیٹو کے تمام اتحادیوں کے مقابلے میں ترکی میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے۔ ترکی میں اس وقت شام، لیبیا اور دیگر ممالک کے 40 لاکھ مہاجرین آباد ہیں۔
سٹولن برگ نے کہا کہ اپنے حالیہ دورہ ترکی میں انہوں نے صدر رجب طیب ایردوان سے روس کے S 400 ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم پر اپنے تحفظات واضح کئے ہیں۔ اس کے علاوہ نیٹو نے لیبیا کی موجودہ صورتحال اور مشرقی بحیرہ روم پر بھی اپنے خدشات سے ترکی کو آگاہ کیا ہے۔
نیٹو پارلیمنٹ میں ترک وفد کے سربراہ عثمان اسکین نے جرمن پارلیمنٹیرین ٹیٹرین کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تکری ایک جمہوری اور نیٹو کا اہم اتحادی ملک ہے۔ نیٹو کے تمام مشنز میں ترکی نے حصہ لیا ہے۔ ترکی جیسا کہ سیکٹری جنرل نے کہا کہ شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ سخت جنگ لڑی ہے۔ انہوں نے جرمن پارلیمنٹیرین کے الزامات کی سخت مذمت بھی کی۔