جب دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی

(پاک ترک نیوز)
اس بات میںکوئی شک نہیں کہ اگر دنیا تیسری عالمی جنگ کا شکار ہوتی ہے تو اس جنگ کی نوعیت گزشتہ عالمی جنگوں سے مختلف ہوگی۔ یوں تو جنگ عظیم دوم میں جوہری ہتھیاروں کا پہلی مرتبہ استعمال ہوا لیکن اسکے بعد سے اب تک سرد جنگ اور اسکے بعد کے حالات نے جوہری ہتھیاروں کے دوبارہ استعمال کے تدارک کے حوالے سے بہت سے اقدامات پر دنیا کو مجبور کیا ہے۔
یہ بھول جانا قطعا آسان نہیں ہے کہ آج دنیا بھر میں 14ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں جو تین ارب انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کافی ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ عالمی جنگ ایٹمی جنگ ہوگی جس کے نتیجہ میں جوہری سرما انسانوں کا مکمل سفایا کردے گا۔
جوہری ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود مختلف ممالک اپنے وارہیڈز کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں۔ آج کے جوہری ہتھیار دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والےہتھیاروں سے بہت زیادہ طاقتور اور جدید ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ 2019سے 2028کے درمیان اپنی ایٹمی صلاحیتوں میں اضافے پر 497ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سرد جنگ کے دوران ایٹمی حملے کی پیشگی اطلاع دینے والے نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نظام کا مقصد تھاکہ ایٹمی حملے کی صورت میں فوری جواب دیا جاسکے اور مزائل کے اپنے اہدات کی نشانہ بنانے سے پہلے ہی جوابی حملہ کیا جاسکے۔
امریکہ کے کئی سیٹلائٹس دنیا بھر کے ایٹمی اسلحہ پر خاموشی سے نظر رکھے ہوئے ہیں ان میں سے چار ایسے خلائی سیارچہ ہیں جوہزاروں میل دور زمین کے آخری مدار میں ہیں۔

یہ سیارے زمین کی گردش کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں جس سے انہیں ایک مخصوص علاقے پر 24 گھنٹے نظر رکھنے کی صلاحیت حاصل ہے۔
لیکن مصنوعی سیارہ ایک مخصوص علاقے تک ہی مزائل کی نشاندہی کرسکتا ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے سینکڑوں کی تعدا د میں ریڈار سٹیشن بنائےہیں جو کسی بھی مزائل کی پوزینش اور رفتار کے بارے میں بروقت آگاہ کرسکتے ہیں۔
لیکن تاریخ میں ایسا بارہا ہوا جب انسانی اور ٹیکنالوجی کی غلطیو ں نے بنی نو ع انسان کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نظام میں کتنی خامیاں موجود ہیں اور دنیا کیسے کسی چھوٹی سی غلطی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے۔
کیوبن مزائل بحران کےد وران ایسی کسی ایٹمی جنگ کا خطرہ ایک حقیقت تھا جب ایک امریکی جاسوس طیارے نے روس کی جانب سے کیوبا میں مزائل اور لانچرز کی تصاویر کھینچیں۔اسی بحران کے دوران سن 1962کے اکتوبر میں ایک ایسا واقع پیش آیا جب ایک جانور کی وجہ سے ایٹمی جنگ چھڑنے کو تھی۔ ہوا یوں کہ امریکہ میں ڈولٹھ ڈائریکشن سینٹرمیں ایک سنتری کو حفاظتی باڑ پر ایک سایہ نظر آیا، سنتری نے خطرے کا الارم بجادیا جس کے بعد اس علاقے کے ہر ائیر بیس میں انتباہی سائرن بجنے لگے۔
قریب ہی ایک فضائی اڈے پر کسی نے غلط سوئچ دبا دیا جس کی وجہ سے پائلٹس کو عام سیکیورٹی وارننگ کے بجائے سنگین خطرے کا سائرن سنائی دیا۔پائلٹس انتہائی پھرتی سے جوہری ہتھیاروں سے لیس طیاروں پر سوار ہوگئے۔ اسی دوران اڈے پر ایک اہلکار کو غلطی کا احساس ہوا اور اسنے ایک ٹرک کے ذریعے طیاروں کو ٹیک آف کرنے سے روکا ۔ بعد میں ڈولٹھ سینٹر میں پتہ چلا کہ جسے سنتری نے کوئی انسانی سایہ سمجھا تھا وہ ایک ریچھ تھا۔
اسی طرح سن 1958میں ایک طیارے سے غلطی سے ایک ایٹم بم کسی گھر کے باغ میں جاگرا۔ معجزانہ طور پر اس سے کوئی ہلاک نہ ہوا۔ ساڑے تین ٹن وزنی اس بم کومحفوظ بنایاگیا تھا جس کی وجہ سے وہ چلا نہیں اور کوئی تابکاری نہ نکلی۔
2010میں امریکی ائیر فورس کا درجنو ں ایٹمی مزائلوں سے رابطہ عارضی طور پر منقطع ہوگیاجس سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ اگر یہ مزائل خود بخود ایکٹو ہوجاتے تو اسکا پتہ نہ لگتا ور نہ ہی انہیں روکا جاسکتا ۔
انیس سو پچانوے میں روس کے ایک ریڈار آپریٹر کو ناروے کے ساحلی علاقے سے ایک راکٹ نظر آیا۔جس کی اطلاع روسی صدر بور س یلس کے ایٹمی بریف کیس تک پہنچی جسے کھول انہوں نے اپنے وزیر دفاع سے فوری رابطہ قائم کیا۔ جواب دینے کیلئے چند منٹ کا وقت ہی تھا لیکن خوش قسمتی سے اس دوران معلوم ہوگیا کہ روس اس کا ہدف نہیں اور وہ ایک سائنسی راکٹ تھا۔
سنہ انیس سو اسی میں جب امریکہ میں جمی کارٹر منصب صدارت پر فائز تھے ایک بہت بڑی غلط فہمی نے دنیا میں جنگ کا خطرہ پیدا کردیا۔
وائٹ ہاوس کے اہلکار کو صبح تین بجے ائیر ڈیفنس کمانڈ آفس سے کال آئی جس میں بتایا گیا کہ کمپیوٹرزنے 200مزائلوں کو ڈٹیکٹ کیا ہے جو سوویت یونین سے امریکہ کی جانب داغے جارہے ہیں۔
خوش قسمتی سے امریکی صدر کو جگانے میں تاخیر کی گئی اور وہ فالس الارم ثابت ہوا۔اگر صدر کارٹر کو جلدی جگا دیا گیا ہوتا یا اگر صدر کو یہ کال براہ راست موصول ہوتی تو انکے پاس جوابی حملے کے پانچ منٹ بچتے۔
کمپیوٹرز نے ایک ڈالر سے بھی کم مالیت کی ایک چپ میں خرابی کی وجہ سے یہ فالس الارم دیا تھا جسے بعد میں تبدیل کردیا گیا۔
اسی طرح جوہری حملے کا حتمی اختیار رکھنے والے صدور اور وزرائے اعظم کے نفسیاتی طور پر بیمار ہونےیا کثرت شراب نوشی کے باعث کوئی غلطی کرنے کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے ایک فوجی اڈے میں ان تزویراتی ہتھیاروں کے ذمہ دار اہلکاروں کے منشیات استعمال کرنے کا بھی انکشاف ہوا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More