جرمنی ترکیہ اور یونان کے مابین تنازعات کے حل میں ثالثی کا حق کھو چکا ہے۔ ترک اور جرمن وزرائے خارجہ کی پریس کانفرنس

انقرہ (پاک ترک نیوز)
ترکیہ کےوزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے جرمنی پر اپنا غیر جانبدارانہ موقف کھونے پر تنقیدکرتے ہوئے برلن سے مطالبہ کیاہے کہ وہ ترکی اور یونان کے درمیان تنازعہ کے حوالے سے اپنے ثالثی کے کردار کے حوالے سے غیر جانبدارانہ موقف اپنائے۔اور یہ بھی زور دیا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔
جمعہ کی شب یہاں اپنی جرمن ہم منصب اینالینا بیئربوک کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران انہوں نے جرمنی پر زور دیتے ہوئے کہ وہ یونان اور یونانی قبرصی انتظامیہ کی اشتعال انگیزیوں اور پروپیگنڈے سے ہوشیار رہے۔انہوں نے کہا کہ جرمنی کا ترکی، یونان اور یونانی قبرصی انتظامیہ کے درمیان تنازعات کے حوالے سے ایک ثالث کے طور پر غیر جانبدارانہ موقف تھا لیکن وہ اپنی غیر جانبداری کھو چکا ہے۔
بیئربوک نے جمعے کے روز ترکیہ آمد سے قبل ایتھنز میں یونانی وزیر خارجہ نکوس ڈینڈیا کے ساتھ پریس کانفرنس میںگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یونانی جزیرے لیسبوس، چیوس، روڈز اور بہت سے دوسرے یونانی علاقے ہیںجن پرکسی کو سوال کرنے کا حق نہیں ہے۔اور کہا کہ ہم کشیدگی بڑھا کر مشرقی بحیرہ روم کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
چاوش اولونےاس حوالے سے جرمن وزیر خارجہ سے کہا کہ آپ یونان کے غیر قانونی اقدامات پر آنکھیں کیوں بند کیے ہوئے ہیں؟ترکی اور جرمنی نے سابق چانسلر انجیلا مرکل کے دور میں گرمجوشی سے دوستی کی تھی۔ جب مرکل وہاں موجود تھیں تو جرمنی کی پوزیشن متوازن تھی۔ اوریہ ثالثی کر سکتاتھا۔انہوں نے کہا کہ جرمنی نے 2020 میں انقرہ اور ایتھنز کے درمیان کشیدگی میں ایک اور اضافے کو پرسکون کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
بیرباک کے ایتھنز کے دورے میں یونانی وزیر خارجہ ڈینڈیا نے جرمنی سے ایک مشترکہ منصوبے کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا جس کے تحت ترکی ایک جدید نئی کلاس آبدوزیں تیار کر رہا ہے۔
پڑوسی اور نیٹو کے اتحادی ترکی اور یونان متعدد مسائل پر متضادسوچ رکھتے ہیں۔جن میں مشرقی بحیرہ روم میں دائرہ اختیار پر مسابقتی دعوے، ان کے براعظمی شیلف، سمندری حدود، فضائی حدود، توانائی، قبرص کے نسلی طور پر منقسم جزیرے پر اوورلیپنگ دعوے، بحیرہ ایجیئن میں جزائر اور تارکین وطن وغیرہ شامل ہیں۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More