حقیقی آزادی مارچ اور تشدد کی سیاست

 

تحریر :سلمان احمد لالی۔

گزشتہ روز ملک بھرمیں افراتفری، عوام پر بے نظیر حکومتی تشدد کے بعد دار الحکومت شاہراہوں پر جو مناظر دیکھنے کو ملے ان سے ایک سبق ملتا ہے کہ سیاسی فیصلے اور لڑائیوں کو طے کرنے کیلئے انتخابات سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔ گزشتہ روز کی حکومتی حکمت عملی کئی طرح سے ناکام ثابت ہوئی بلکہ حکومت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ عوامی لہر کو تشدد اور طاقت سے دبانے والے کب کامیاب ہوئے ہیں ۔ یہ حکمت عملی سے زیادہ بعض ن لیگی زعما کے عوام پر غصے اور انتقام کا مظہر تھا جن کی حمایت سے یہ حکومت محروم ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی حکومت کو مشورہ دیا کہ اس راہ پر نہ چلیں جو سب کو بند گلی میں لے جائے۔
لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں پولیس والوں کے ساتھ سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کی جانب سے پر تشدد کاروائیوں میں شمولیت اختیار کرنا اور انہیں کھلی چھوٹ اس حکومت کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی طرز سیاست اور طرز فکر کو مکمل طور پر ایکسپوز کرنے کیلئے کافی ہے۔ عام شہریوں کو جس طرح مارا پیٹا گیا او ر گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ن لیگ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے اور رانا ثنا اللہ کو وزیر داخلہ بنانے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا ان میں مکمل صداقت تھی۔
گزشتہ روز کے حکومتی اقدامات سے عوام میں غصے کی نئی لہر نے جنم لیا۔ جب ریاستی مشینری نے عورتوں اور بچوں کے خلاف بھی بے دریغ شیلنگ اور تشدد کے ہتکنڈے استعمال کیے۔
سخت ناکہ بندیوں اور بدترین تشدد کے استعمال کے باوجود عوام کا عمران خان کی کال پر اتنی بڑی تعداد میں غیر متوقع طور پر نکلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک انصاف اب ایک ناقابل تسخیر سیاسی قوت بن چکی ہے۔
لانگ مارچ میں پانچ کارکنان شہید ہوئے جس پر جتنے افسوس کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد میں کوڑے کے ڈھیر اور جھاڑیوں اور چند درختوں کو آگ لگائی گئی جو انتہائی قابل مذمت فعل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ قابل مذمت ان صحافیوں کا رویہ ہے جو سارا دن ستو پی کر سوتے رہے اور انکی زبان سے پولیس کی بدترین دہشتگردی کے خلاف کوئی لفظ تک نہ نکلا لیکن سر شام دختوں جھاڑیوں اور درختوں کے غم میں انکے پیٹ میں وہ مروڑ اٹھے کہ انہوںنے شور مچا مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بعض صحافیوں کا رویہ واقعی قابل غور تھا جو اپنے طرز بیان سے صحافی کم اور ایک سیاسی جماعت کے کارکنان زیادہ لگتے تھے ، پی ٹی آئی کے حمایتی صحافی تو خیر غیر جانبداری کے اظہار کا تکلف نہیں کرتے لیکن جن صحافیوں کا ذکر میں کر رہا ہوں وہ تو غیر جانبداری اور صحافت کی اعلیٰ معیار کے دعویدار تھے۔ یہ رویہ عوام میں صحافت جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرنے کا باعث بنتا ہے اس لفافے اور بکاو میڈیا جیسی اصطلاحات عام مستعمل ہیں۔ ملک میں سیاسی تقسیم عروج پر ہے اور نفرت کے بیج انتنی گہرائی میں بوئے جارہے ہیں کہ معاشرے میں کسی خلفشار کا اندیشہ ہے۔ صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو چھوڑ کر سیاسی بیان دینے کے بجائے معاشرے پر غور کریں اور اپنی ذمہ داری پوری کریں تو ملک کیلئے بہتر ہوگا۔
اب آتے ہیں دوسرے پہلو کی جانب ۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کا لانگ مارچ کامیاب ہوا؟ کیا عوام کی بڑی تعداد میں شرکت کی ؟ ان دونوں سوالوں کا ایک جواب ہے :نہیں۔
لانگ مارچ کی کامیابی کا دعویٰ قبل از وقت ہے کیوں کہ اس تحریک کا بنیادی ہدف حکومت کو اسمبلی توڑ کر نئے انتخابا ت کے اعلان پر مجبور کرنا تھا۔ جب تک یہ نہیں ہوتا ، تمام قربانیاں اور تکلیفیں جو عوام نے برداشت کیں وہ رائیگاں تصور ہوں گی۔ لاہور اور پنجاب کی قیادت کی نا اہلی اور کم ہمتی خاص طور پر قابل غور ہے لیکن چند افراد کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ حماد اظہر اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے جس طرح پولیس کے ظلم اور استبداد کا سامنا کی اور ڈٹےرہے وہ لائق تحسین ہے اور سرگودھا ، چنیوٹ کے کچھ ارکان اسمبلی نے غیر معمولی جرا ت کا مظاہرہ کیا۔ لالیا ں سے ممبر قومی اسمبلی تیمور امجد لالی کا ذکر میں خاص طور پر کروں گا جنہو ںنے عمران خان کی کال پر بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہو ں نے دیگر سیاسی زعما کی طرح خود گرفتاری دینے کے بجائے نا صرف مزاحمت کا راستہ اپنایا، کامیابی سے پولیس کو بھی چکمہ دیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو لے کر ریلی کی شکل میں اسلام آباد کیلئے روانہ ہوئے۔ انہیں جگہ جگہ پر روکا گیا۔ پولیس نے تشدد کیا لیکن وہ ثابت قدم رہے۔ انکی اور انکے ساتھیوں کی گاڑیاں تباہ کردی گئیں لیکن انکے پائے ثبات میں لغزش نہ پیدا ہوئی۔ ایسی نوجوان قیادت کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتی ہے۔ سرگودھا سے اسامہ میلہ کی نوجوان قیادت میں بھی لوگوں کی بڑی تعدادنے سالم کے مقام پر کارزار میں ثابت قدمی کی نئی داستانیں رقم کیں۔ ایسی بہت سی داستانیں ہیں جو کل رقم ہوئیں ۔ لاہور اور پنجاب کی قیادت بالخصوص محمود رالرشید ان نوجوانوں سے بہت کچھ سیکھ سکتےہیں۔
آخری مایوسی کا ذکر کر کے میں میں اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔ وہ مایوسی ہےکہ عوام کی جانب سے سارا دن تکالیف برداشت کرنے کے بعد عمران خا ن نے مختصر تقریر کے بعد سب کو گھر بھیج دیا گیا۔ اور 6دن کی حکومت کو مہلت د ے کر بنی گالہ جاتے بنے۔ اگر یہ سب ہی کرنا تھا تو عوام کو اس اذیت میں مبتلا کیوں کیا گیا۔ اور اس لانگ مارچ نے تحریک انصاف کی بہت بڑی کمزوری کو بھی آشکار کیا وہ ہے پلاننگ کا فقدان ۔ بلاشبہ پنجاب کے بڑے رہنماوں نے کارکنا ن کو بہت مایوس کیا۔

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More